وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
اور اہل کفر آپ سے اچھائی سے پہلے برائی کا مطالبہ (٦) کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے (عبرتناک) مثالیں گزر چکی ہیں اور بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کی بڑی مغفرت (٧) کرنے والا ہے، اور بیشک آپ کا رب بہت سخت سزا دینے والا بھی ہے۔
عذاب میں تاخیر کے اسباب: منکرین حق کا یہ مطالبہ سنجیدگی پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ مذاق اور طنز پر مبنی ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ اپنے کفر و انکار کی وجہ سے اللہ کے عذاب کی پکڑ میں آگئے آپ کہہ دو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حلم و کرم ہے۔ کہ گناہ دیکھتا ہے او رفوراً نہیں پکڑتا۔ دن رات خطائیں دیکھتا ہے اور درگزر فرماتا ہے۔ اگر فوراً پکڑتا تو روئے زمین پر کوئی زندہ نہ چھوڑتا۔ دوسرا یہ کہ عذاب کا بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے مہلت کا وقت ہوتا ہے۔ اگر اس مدت میں کوئی قوم اپنی حالت بہتر بنالے تو اللہ عذاب نازل نہیں کرتا۔ اور وہ بھی بندوں پر اللہ کی رحمت ہے۔ پھر بھی اگر قوم نہ سنبھلے تو آخری چارہ کار یہ ہوتا ہے کہ ان کو سزا دے اور عذاب نازل کرے پھر جب عذاب نازل کرتا ہے تو اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔