سورة الرعد - آیت 2

اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ اللہ کی ذات ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں (٢) کے جنہیں تم دیکھ سکو، اوپر اٹھایا، پھر عرش مستوی پر مستوی ہوگیا، اور آفتاب و ماہتاب کو ڈیوٹی کا پابند بنا دیا، دونوں ایک معین مدت کے لیے چلتے رہتے ہیں، وہی تمام معاملات کا انتظام کرتا ہے، اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عظمت ربانی اور کمال قدرت دیکھو کہ بغیر ستونوں کے اس نے آسمانوں کو بلند و بالا قائم کر رکھا ہے۔ اِسْتَواءُ عَلَى الْعَرْشِ سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کہتے ہیں اس کی کیفیت نہ بیان کی جا سکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے جیسا کہ سورت الشوریٰ میں ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ سیاروں کی گردش تا قیامت: اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ سورہ یٰسین ۳۸ میں فرمایا ﴿وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا﴾ ’’اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے۔‘‘ دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی منزلوں پررواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کر لیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ﴾ (یٰسٓ: ۴۰) ’’ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دی ہیں‘‘ سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہی دو سب سے بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے بھی اسی کے تابع ہوں گے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہوں گے تو یہ معبود نہیں ہو سکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (حم السجدۃ: ۳۷) سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو۔ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔‘‘ کائنات کے نظام میں وجود باری تعالیٰ کی دلیل: یعنی سیاروں کی گردش کے جو قائدے قوانین مرتب کر رکھے ہیں وہ ان کے پابند ہیں ذرا بھرادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنے اس نظام کی نگرانی بھی کر رہا ہے، کیونکہ جو چیز ہر وقت حرکت میں رہے خراب بھی ہو سکتی ہے۔ گھس بھی جاتی ہے۔ حرکت میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ تباہ بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام باتوں کی تدبیر بھی کر رہا ہے۔ پھر جو قادر مطلق ایسا عظیم کارخانہ کائنات وجود میں لا سکتا ہے۔ اس پر ضبط قائم رکھ سکتا ہے اُس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا چنداں مشکل نہیں۔ اس دلیل کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہستی نظام کائنات کو ایسے تناسب، عدل اور حکمت کے ساتھ چلا رہی ہے، کیا وہ انسان کو ایسا بے لگام چھوڑ سکتی ہے کہ وہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہے کرتا پھرے اور اس سے کچھ مواخذہ نہ کیاجائے۔لہٰذا اللہ کے عدل و حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی ظلم و ستم ڈھاتے ہوے گزاری ہے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو ساری زندگی اللہ کی حدود و قیود میں جکڑے رکھا دونوں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا وجزا دی جائے۔ لہٰذا ازروئے عدل و حکمت دوسری زندگی کا قیام ضروری ہوا۔