سورة یوسف - آیت 80

فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب وہ لوگ اس کی جانب سے بالکل ناامید (٦٨) ہوگئے، تو ایک ساتھ الگ جمع ہو کر مشورہ کرنے لگے، بڑے بھائی نے کہا کیا تمہیں یا نہیں ہے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کے نام پر عہد و پیمان لیا تھا، اور اس سے پہلے یوسف کے سلسلے میں تم سے جو تقصیر ہوچکی ہے وہ تمہیں معلوم ہی ہے، اس لیے میں اس ملک سے واپس نہیں جاؤں گا، یہاں تک میرے والد مجھے اجازت دیں یا اللہ میرے حق میں کوئی فیصلہ کردے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جب برادران یوسف اپنے بھائی کی رہائی سے مایوس ہو گئے تو علیحدہ ہو کر تنہائی میں جا کر سب بھائی اس پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے۔ بڑے بھائی نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ تمھیں معلوم ہے کہ اس زبردست پختہ وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کرکے آئے ہیں اب انھیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہی ہے کہ ہم کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کرا لیں۔ پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور زیادہ پشیمان کر رہا ہے جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہم سے سرزد ہو چکا ہے۔ پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں یہاں تک کہ یا تو ابا جان میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ سُجھا دے کہ میں کسی طرح اپنے بھائی کو ان لوگوں سے چھڑا سکوں۔ یا اللہ تعالیٰ میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرے۔ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔