قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ
بادشاہ کے لوگوں نے کہا، ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا ہے، اور جو سے حاضر کردے گا اسے ایک اونٹ کا غلہ زیادہ ملے گا، اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
اپنے اوپر چوری کی تہمت سن کر برادران یوسف علیہ السلام کہنے لگے: ہم شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تم ہمیں جان چکے ہو۔ ہماری عادات وخصائل سے واقف ہو چکے ہو۔ ہم ایسے نہیں کہ کوئی فساد اٹھائیں اور چوریاں کرتے پھریں۔شاہی ملازمین نے کہا: اچھا ٹھیک ہے مگر تم اپنا سامان ہمیں دکھا دو۔ اور یہ بھی بتادو کہ اگر بالفرض تم میں سے کسی کے سامان سے مسروقہ مال برآمد ہو جائے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں چور کی سزا یہ ہوتی ہے کہ جس شخص کے سامان سے یا گھر سے مسروقہ مال برآمد ہو۔ دین ابراہیمی کے مطابق اس کی سزا یہ ہے کہ وہ شخص سال بھر کے لیے اسی کے حوالے کر دیا جائے۔ اب یوسف علیہ السلام کا مقصد پورا ہوگیا۔ اور حکم دیا کہ تلاشی لی جائے۔