وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ نجات پاجائے گا اس سے کہا (٣٨) کہ اپنے بادشاہ سے میرے بارے میں بات کرنا، لیکن شیطان نے اس کے دماغ سے یہ بات بھلا دی کہ بادشاہ کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا، اس لیے انہیں کئی سال تک جیل میں رہنا پڑا۔
ظن سے مراد یقین ہے: یوسف علیہ السلام کو ساقی کے متعلق یقین تھا کہ وہ قید سے رہا ہو کر اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کر دیا جائے گا۔ جب وہ قید خانے سے جانے لگا تو یوسف علیہ السلام نے اس سے کہا کہ بادشاہ سے میرے متعلق بھی تذکرہ کرنا کہ ایک بے قصور آدمی مدت سے قید خانہ میں ڈال دیا گیا ہے اس کی طرف آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ لیکن رہائی پانے والا ساقی اس بات کو بالکل ہی بھول گیا یہ بھی ایک شیطانی چال تھی جس سے سیدنا یوسف علیہ السلام کئی سال تک قید خانے میں ہی رہے۔ قرآن میں (بضع، سنین) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا اطلاق دس سے کم اعداد پر ہوتا ہے۔ اور مفسرین کے مطابق آپ کی قید سات یا نو سال تھی۔