فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
جب عورت کو ان کی سازش کی خبر ہوئی تو اس نے انہیں دعوت (٢٩) دی اور ان کے لیے ایک مجلس تیار کی اور ان میں سے ہر ایک کو ایک چھری دے دی، اور یوسف سے کہا، تم ان کے سامنے آؤ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو ان سے حد درجہ مرعوب ہوگئیں اور اپنے ہاتھ زخمی کرلیے اور کہنے لگیں، بے عیب ذات اللہ کی، یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے، یہ تو یقینا کوئی اونچے مرتبہ کا فرشتہ ہے۔
ضیافت کا اہتمام: زنانِ مصر کی غائبانہ باتوں اور طعن کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان عورتوں کو بھی یوسف علیہ السلام کے بے مثال حسن و جمال کی اطلاعات پہنچ چکی تھیں چنانچہ وہ اس پیکر حسن کو دیکھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ وہ اپنے اس مکر میں کامیاب ہو گئیں اور عزیز مصر کی بیوی نے یہ بتلانے کے لیے کہ جس پر میں فریفتہ ہوئی ہوں محض ایک غلام یا عام آدمی نہیں ہے بلکہ ظاہر و باطن میں ایسے حسن سے آراستہ ہے کہ اُسے دیکھ کر نقد دل و جان ہار جانا کوئی انہونی بات نہیں چنانچہ اس نے مصر کی عورتوں کی ضیافت کا اہتمام کیا اور انھیں دعوت طعام دی اور ایسی نشست گائیں بنائیں جن میں تکیہ لگے ہوئے تھے جیسا کہ آج کل عربوں میں ایسی فرشی نشست گاہیں عام ہیں۔ حضرت یوسف کو پہلے چھپائے رکھا جب سب عورتوں نے ہاتھوں میں پھل کاٹنے کے لیے چھریاں پکڑ لیں تو زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مجلس میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ اسی وقت جس کمرے میں تھے وہاں سے آگئے۔ حسن یوسف علیہ السلام کی جلوہ آرائی دیکھ کر ایک تو ان کی عظمت و جلال اور رعب و حسن سے وہ عورتیں بے خود ہو گئیں اور دوسرے ان پر بے خودی اور وارفتگی کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ چھریاں اپنے ہی ہاتھوں پر چلا لیں جن سے ان کے ہاتھ زخمی اور خون آلود ہو گئے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن کا آدھا حصہ عطا کیا تھا۔ (مسلم: ۱۶۳) تبصرہ کرنے والی عورتوں کی شہادت: ان عورتوں نے بھی بچشم خود یکھ لیا کہ ان کی ساری دلکشیوں اور رعنائیوں کے باوجود یوسف علیہ السلام کسی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتا بھی نہیں تو بے ساختہ پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ معزز فرشتہ ہے۔ یہ بات ناممکنات سے ہے کہ ایک نوجوان انسان جنسی خواہشات سے اس قدر بالا تر ہو کر وہ ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ اور انھیں فرشتے اس لیے قرار دیا کہ عام انسان یہی سمجھتا ہے کہ فرشتے ذات اور صفات کے لحاظ سے ایسی شکل رکھتے ہیں جو انسانی شکل سے بالاتر ہو۔