وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور دونوں نے دروازے کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنا (٢٥) چاہا، اور عورت نے ان کی قمیص پیچھے سے پھاڑ دی، اور دونوں نے اس کے شوہر کو دروازے کے پاس پایا، عورت نے کہا، اس آدمی کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے، اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے۔
جب حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ عورت برائی کے ارتکاب پر مصر ہے تو وہ باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف دوڑے کہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں اور زلیخا ان کے پیچھے دوڑی اور آپ علیہ السلام کو پیچھے سے کرتا پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا۔ اس کشمکش میں آپ کی قمیض پیچھے سے پھٹ گئی۔ تاہم یوسف علیہ السلام دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے اور جب دروازہ کھلا تو دفعتاً عزیز مصر کو دروازے پر کھڑا موجود تھا جس نے بچشم خود دیکھ لیا کہ دونوں ایک بند کمرے سے باہر آ رہے ہیں آگے یوسف علیہ السلام اور پیچھے زلیخا اور یہ کچھ بدکاری کے امکان کا کافی ثبوت تھا یاکم از کم ایسا شبہ ضرور پڑ سکتا تھا۔ زلیخا کا چلتر: خاوند کو دیکھتے ہی خود معصوم بن گئی اور مجرم یوسف علیہ السلام کو قرار دے کر ان کے لیے سزا بھی تجویز کردی۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس تھی۔ مجرم خود وہی تھی جبکہ یوسف علیہ السلام بالکل بے گناہ اور برائی سے بچنے کے خواہش مند اور اس کے لیے کوشاں تھے۔