وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ
اور وہ رات (١٦) کو اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔
برداران یوسف جب اپنی سمجھ کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کو ٹھکانے لگا چکے تو اب سوچنے لگے کہ واپس جا کر باپ کو کیا جواب دیں گے جو پہلے ہی ان پر اعتماد نہیں کر رہا تھا۔ وہ کوئی عادی مجرم تو تھے نہیں۔ فقط حسد اور انتقام کی آگ نے انھیں اس فعل پر مجبور کر دیا ۔ لہٰذا انھیں اس بات کے سوا کوئی بہانہ نہ سوجھا جس کی طرف ان کے باپ نے اشارہ کیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے یوسف علیہ السلام کا کرتا اُتارا، ایک ہرن یا بکری کو ذبح کیا۔ اور وہ کرتا خون میں لت پت کر لیا اور یہ بھول گئے کہ بھیڑیا اگر یوسف علیہ السلام کو کھاتا تو قمیض کو بھی تو پھٹنا تھا۔ قمیض ثابت کی ثابت ہی رہی۔ پھر یہ سب کافی رات گئے اندھیرے میں روتے دھوتے اور آہ و بکا کرتے گھر واپس آئے اور باپ کو بتایا کہ ہم آپس میں بھاگ دوڑ کے مقابلے میں مشغول ہو گئے اور یوسف علیہ السلام کو اپنے کپڑوں اور سامان وغیرہ کے پاس بیٹھا گئے تھے جب ہم دور نکل گئے تو ایک بھیڑیا آیا جس نے یوسف علیہ السلام کو پھاڑ کھایا۔ اور اپنے اس ڈرامہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے یوسف کی خون آلود قمیض بھی پیش کر دی۔ پھر باپ کو یقین دلانے کے لیے کہنے لگے کہ ہم اگر آپ کے نزدیک سچے ہی ہوتے تب بھی یوسف علیہ السلام کے معاملے میں آپ ہماری بات کی تصدیق نہ کرتے اب تو ہماری حیثیت مشکوک افراد کی سی ہے اب آپ کس طرح ہماری بات کی تصدیق کر لیں گے؟