إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
سوائے ان کے جن پر آپ کا رب رحم کرے گا، اور انہیں اسی لیے پیدا کیا ہے اور آپ کے رب کی یہ بات طے شدہ ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں تمام سے بھروں گا۔
پیدا ہی اس لیے کیا ہے: سے مرادہم نے انسانوں کو آزمایش کے لیے پیدا کیا ہے۔ جو دین حق سے اختلاف کرے گا وہ آزمایش میں ناکام ہوگا اور جو اُسے اپنا لے گا وہ کامیاب اور رحمت الٰہی کا مستحق ہوگا۔ دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ یعنی اللہ کی تقدیر اور قضا میں یہ بات ثبت ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جہنم کے مستحق ہوں گے اور جنت و جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دیا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت اور دوزخ آپس میں جھگڑ پڑیں۔ جنت نے کہا: کیا بات ہے کہ میرے اندر وہی لوگ آئیں گے جو کمزور اور معاشرے کے گرے پڑے لوگ ہوں گے؟‘‘ جہنم نے کہا! میرے اندر تو بڑے بڑے جبار اور متکبر قسم کے لوگ ہوں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا ’’تو میری رحمت کی مظہر ہے، تیرے ذریعے سے میں جس پر چاہوں اپنا رحم کروں اور جہنم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’تو میرے عذاب کا مظہر ہے۔ تیرے ذریعے سے میں جس کو چاہوں سزا دوں۔ اللہ تعالیٰ جنت اور دوزخ دونوں کو بھر دے گا، جنت میں ہمیشہ اس کا فضل ہو گا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا فرمائے گا جو جنت کے باقی ماندہ رقبے میں رہے گی اور جہنم، جہنمیوں کی کثرت کے باوجود (ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ) کا نعرہ بلند کرے گی۔ یہاں تک کہ اللہ اس میں اپنا قدم رکھے گا جس پر جہنم پکار اُٹھے گی۔ بس بس تیری عزت و جلال کی قسم۔ (بخاری: ۷۴۴۹)