سورة ھود - آیت 87

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

انہوں نے کہا، اے شعیب ! کیا تمہاری نمازیں (٧٢) تمہیں حکم دیتی ہیں کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے، یا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنا چھوڑ دیں، بیشک تم تو بڑے ہی بردبار اور سمجھدار ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اگر نماز فی الواقع سوچ سمجھ کر اور خشوع و خضوع سے ادا کی جائے تو وہ وہی باتیں سکھلاتی ہے جو شعیب علیہ السلام اور اس کے پیروکاروں کو سمجھ آگئی تھی۔ نماز انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اور تقویٰ انسان کو ہر طرح کے اعتقادی، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے بچاتا ہے۔ جو انسان بیسیوں دفعہ سوچ سمجھ کر اِیَّا کَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھے وہ مشرک کیسے ہو سکتا ہے۔ اور جو انسان بیسیوں دفعہ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ وہ یقینا بد دیانتیاں ترک کر دے گا اور حلال و حرام کی تمیز اسے ملحوظ رہے گی جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ﴾ (العنکبوت: ۴۵) فحشا اور منکر کے الفاظ میں اتنی وسعت ہے کہ ہر طرح کی برائیاں ان دونوں لفظوں میں آجاتی ہیں۔ مال میں تصرف کرنا چھوڑ دیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ ان معبودوں کو کیسے چھوڑ دیں جن کو ہمارے آباء اجداد پوجتے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ جب مال ہم اپنی محنت و لیاقت سے کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں؟ حضرت ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا کہ ’’جو ہم چاہیں کر اپنے مالوں میں کریں‘‘ یہ مطلب ہے کہ ہم زکوٰۃ کیوں دیں؟ اور حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کا یہ کہنا کہ تم بڑے بردبار ہو ازراہ مذاق وحقارت تھا۔ (تفسیر طبری: ۱۵/ ۴۵۱، ح: ۱۸۴۹۳)