فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ
پس جب ابراہیم کے دل سے ڈر (٦١) نکل گیا، اور انہیں خوشخبری مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے جھگڑنے لگے۔
جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خوف خوشی میں تبدیل ہو گیا تو وہ فرشتوں سے یہ بحث کرنے لگے کہ جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو۔ اسی میں حضرت لوط علیہ السلام بھی موجود ہیں۔ جس پر فرشتوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ لوط علیہ السلام بھی وہاں رہتے ہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ وہاں پر فلاں فلاں مومن بھی موجود ہے پھر تم اس بستی کو کیسے ہلاک کرو گے؟ آپ کا مقصد تھاکہ اگر عذاب کو موخر کر دیا جائے تو شاید لوگ ایمان لے آئیں اور انھیں کچھ مزید مہلت مل جائے وجہ یہ تھی کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نرم دل واقع ہوئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ مخلوق عذاب الٰہی سے بچ جائے۔ فرشتوں نے جواب دیا کہ اب بحث کا کچھ فائدہ نہیں اللہ تعالیٰ ان پر عذاب کا فیصلہ کر چکا لہٰذا اب یہ موخر نہیں ہو سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَنُنَجِّيَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ اِلَّا امْرَاَتَهٗ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ﴾ (العنکبوت: ۳۲) ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچالیں گے۔ جو پیچھے رہنے والوں میں سے ہے۔