وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ
وہ کشتی انہیں لے کر پہاڑوں کے مانند موج میں چلنے لگی، اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی (٣٠) جو کشتی سے الگ کھڑا تھا، اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہ جاؤ۔
حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹے کو نصیحت کرنا: طوفان کی یہ صورت تھی کہ زمین سے مسلسل چشمے پانی ابلتے رہے اور آسمان سے مسلسل بارش ہوتی رہی حتیٰ کہ ٹیلے اور پہار سب کچھ پانی میں ڈوب گئے۔ یہ کشتی حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے اللہ کے حکم سے اور اُس کی حفاظت پہاڑ کی روح کی طرف رواں دواں تھی ورنہ اتنے طوفانی پانی میں کشتی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے۔ اس لیے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بطور احسان فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ۔ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّ تَعِيَهَا اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ﴾ (الحاقۃ: ۱۱۔ ۱۲) ’’جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمھیں کشتی میں چڑھا لیا۔ تاکہ اسے تمھارے لیے نصیحت اور یاد گار بنا دیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔‘‘ اسی دوران نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان جو پہاڑی کے کنارے کھڑا تھا آپ نے اُسے بلایا یہ آپ کے چوتھے لڑکے تھے اور یہ کافر تھا۔ اسے کہا کہ ایمان لے آؤ اور ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو۔