قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
ہم دیکھ رہے کہ آپکا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ رہا ہے، اس لیے ہم آپ کو اس قبلہ (٢١١) کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں، پس آپ اپنا رخ مسجد حرام (212) کی طور پھیر لیجیے، اور (اے مسلمانو !) تم جہاں کہیں (٢١٣) بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو، اور جو اہل کتاب ہیں وہ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے رب کی طرف سے یہی حق (٢١٤) ہے اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل نہیں ہے
یہودیوں کی کتابوں میں مذکور تھا کہ ایک نبی آخرالزماں عرب میں پیدا ہونگے۔ ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ پر ہوں گے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسلام اپنی اصل شکل میں واپس آجائے اور آپ قبلہ اول کی طرف منہ کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے آپ بار بار آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رخ اسی طرح پھیر دیا ۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی اللہ نے تبدیلی قبلہ کا حکم دے دیا۔ لہٰذا ان کا یہ جھگڑا کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں محض حسد و عناد کی بنا پر تھا۔ یعنی اگر آپ ان کی کتابوں سے یہ بات انھیں دکھا بھی دیں تب بھی یہ ماننے والے نہیں ۔حضرت ابراہیم یہودیوں اور عیسائیوں کی راہنمائی کے بانی تھے ۔قبلہ اول تو پہلے ہی سے تھا اب اس کو اُمت کا مرکز بنادیا گیا۔