وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
اور آپ ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق کشتی (٢٦) بنایے، اور ظالموں کی نجات کے سلسلے میں ہم سے بات نہ کیجیے، وہ بلا شبہ ڈبو دیئے جائیں گے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری نگرانی میں: اس آیت میں اللہ رب العزت کی صفت عین کا ہونا ثابت ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اور ہماری وحی سے: کا مطلب ہے اس کے طول و عرض کی جو کیفیات ہم نے بتلائی ہیں اس کے مطابق یہ کشتی بنانا۔ یعنی جب یہ صورت حال پیدا ہو گئی تو حضرت نوح علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم دیا گیا کہ دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک بہت بڑی کشتی تیار کرو۔ اور دیکھو جو لوگ اب تک ایمان نہیں لائے ان سب کو میں غرق کرنے والا ہوں، لہٰذا ان میں سے کسی پر تمھیں ترس آجائے اور تم اس کی نجات کے لیے مجھے سے درخواست کرنے لگو۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد نوح علیہ السلام کے بیٹے اور بیوی کو لیا ہے جو مومن نہیں تھے اور غرق ہونے والوں میں سے تھے بعض نے پوری قوم مراد لی ہے۔ مطلب یہ کہ ان کے لیے کوئی مہلت نہ کرنا اور ان کے ہلاک ہونے کا وقت آگیا ہے۔ یا یہ کہ اس کی ہلاکت کے لیے جلدی نہ کریں وقت مقررہ میں یہ سب غرق ہو جائیں گے۔ (فتح القدیر)