وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور اس سے بڑھ کر ظالم (١٦) کون ہوگا جو اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے، ایسے لوگ (میدان محشر میں) اپنے رب کے سامنے پیش کیے جائیں گے، اور گواہان کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھوٹ بولا تھا، آگاہ رہیے کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنے والے۔ جو لوگ کوئی چیز خود ایجاد کرکے اللہ کے ذمے لگا دینا یا اسے شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کام گناہ کبیرہ اور شرک ہے۔ مثلاً اللہ کے سوا کسی بزرگ، نبی، پیر فقیر کو یا آستانے کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا کہ قیامت میں اگر ہم سے اگر مواخذہ ہو گا تو ہمارے پیروں میں اتنی قدرت ہے کہ وہ ہمیں چھڑا لیں گے، ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کسی قسم کی رو رعایت نہیں ہوگی۔ ’’کفارو منافقین پر نو گواہ پیش ہوں گے جو کہیں گے کہ یہی وہ ہیں جو اللہ پرجھوٹ بولتے ہیں یاد رہے کہ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ (بخاری: ۲۴۴۱، مسلم: ۲۵۸۳) یہ گواہ فرشتے، کراماً کاتبین بھی ہو سکتے ہیں، انبیاء بھی اور عام لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور جب جرم نہ تسلیم کرنے پر اصرار کریں گے تو ان کے اعضا و جوارح بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ مومنوں سے سرگوشی: ایک روایت میں ہے کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک مومن سے اس کے گناہوں کا اقرار و اعتراف کروائے گا کہ تجھے معلوم ہے کہ تو نے فلاں گناہ بھی کیا تھا فلاں بھی کیا تھا وہ مومن کہے گا کہ ہاں ٹھیک ہے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے ان گناہوں پر دنیا میں پردہ ڈالے رکھا جا آج بھی انھیں معاف کرتا ہوں۔ لیکن دوسرے لوگ یا کافروں کا معاملہ ایسا ہوگا کہ انھیں گواہوں کے سامنے پکارا جائے گا اور گواہ یہ گواہی دیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا۔ (صحیح بخاری: ۲۴۴۱)