وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کی رہائش کے لیے اچھی جگہ (٦٠) مہیا کی اور عمدہ اور پاکیزہ روزی عطا کی، پھر جب ان کے پاس احکام الہی کا علم آگیا تو آپس میں اختلاف کر بیٹھے بیشک آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ صادر کردے گا جن میں وہ آپس میں اختلاف کرتے تھے۔
بنی اسرائیل کا شام کے علاقہ پر قبضہ اور تفرقہ بازی: اللہ تعالیٰ نے ملک مصر اور شام میں ان کو غلبہ دیا تھا۔ یہ دونوں ملک سرسبز و شاداب، غلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں اس کے علاوہ انھیں تورات بھی عطا کی تھی۔ لیکن زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل ہدایات ہونے کے باوجود یہ لوگ کئی فرقوں میں بٹ گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تورات ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے کافی نہیں تھی بلکہ ہ تو ان کا تکبر اور ہٹ دھرمی تھی۔ آج مسلمان بھی اسی فرقہ بازی کی لعنت کا شکار ہیں آج بھی اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود ہے۔ اور اگر ان کی طرف رجوع کر لیا جائے تو اتحاد ممکن ہے۔ ورنہ قیامت کے دن تو اللہ تعالیٰ ان اختلافات کرنے والوں کا فیصلہ کردے گا۔