وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر (٥٩) پار کرادیا، تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی میں آکر اور حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو کہا، میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں اب فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جن حالات میں بنی اسرائیل کو لے کر نکلے تھے اور جس طرح بعد میں فرعون اور اس کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا تھا، نیز دریا کے پھٹنے، بنی اسرائیل کے بخیر و عافیت پار اتر جانے اور فرعون کے لشکر سمیت دریا میں غرق ہونے کی تفصیل پہلے سورۂ اعراف آیت نمبر ۱۳۶ میں گزر چکی ہے۔ یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ فرعون کو جب موت سامنے نظر آگئی تو کہنے لگا کہ ’’فی الواقع رب میں نہیں تھا بلکہ حقیقی معبود وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایما ن لائے ہیں میں بھی اس پر ایمان لاتا ہوں اور اس کا فرمانبردار بن کر رہوں گا، یہ وہی بات ہے جس کا موسیٰ نے اپنی دعا میں ذکر کیا تھا کہ ان کے دل اس قدر سخت ہو چکے ہیں کہ جب تک کوئی سخت عذاب نہ دیکھ لیں ایمان لانے پر تیار نہ ہوں گے۔