سورة یونس - آیت 88

وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور موسیٰ نے کہا (٥٧) اے ہمارے رب ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیاوی زندگی کے اسباب زینت اور مال و دولت کیا اس لیے دیا ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے برگشتہ کریں، اے اللہ ! تو ان کے مال و دولت کو نیست و نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت بنا دے تاکہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

فرعون کا تکبر اور موسیٰ کی دعا: جب فرعون اور اس کی قوم تکبر، تعصب بڑھتا ہی گیاستم اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے یہ دعا کی کہ یا اللہ تو نے انھیں دنیا کی زینت مال و دولت خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ مال تیرے حکم کے مطابق خرچ نہیں کرتے، بلکہ دعوت حق کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ لہٰذا اے ہمارے پروردگار ان لوگوں کے مال و دولت اور وسائل کو تباہ کر دے تاکہ یہ لوگ کم از کم دوسرے لوگوں کو راہ حق سے نہ روکیں۔ پیغمبر تو ہدایت کی دعا کرتے ہیں نہ کہ ہلاکت کی بددعا دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت کے بعد جب واضح ہو جائے یہ اب ایمان لانے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہی تو پھر آخری چارہ کار یہی رہ جاتا ہے کہ اس قوم کے معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ گویا اللہ کی مشیت ہی ہوتی ہے جو بے اختیار پیغمبر کی زبان پر جاری ہو جاتی ہے۔ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے بھی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر اپنی قوم کے بارے میں بددعا فرمائی: اے رب زمین پر ایک کافر کو بھی بسا نہ رہنے دے۔