وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ
اور آپ انہیں نوح (علیہ السلام) کا واقعہ (٥١) سنا دیجیے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ! اگر تمہارے ساتھ میرا رہنا اور اللہ کی آیتوں کی یاددہانی تم پر شاق گزرتی ہے تو میں نے اللہ پر توکل کرلیا ہے، تم اپنی پوری تیاری کرلو، اور اپنے شرکاء کو بھی ساتھ کرلو، پھر تمہاری تدبیر کسی حیثیت سے بھی تمہارے لیے مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ اسے کر گزرو، اور مجھے مہلت نہ دو۔
حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو چیلنج: مشرکوں کے پاس اپنے مذہب کی صداقت کے لیے سب سے موثر ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ان کے معبودوں یا اولیاء اللہ کی شان میں کوئی گستاخی یا توہین کی تو وہ تمھیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے، اور ان کا یہ عقیدہ نوح علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے۔ آج بھی اولیائے کرام کا کوئی تذکرہ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو ایسی تہدید اور دھمکیاں مل جائیں گی کہ فلاں بزرگ کی فلاں شخص نے یوں توہین کی اس کا ستیاناس ہو گیا یہی بات نوح علیہ السلام کو بھی کہی گئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے انھیں صاف فرما دیا کہ اگر تم پر گراں گزرتا ہے کہ میں تمھیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہوں۔ تم اس سے چڑتے ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو تو سنو مجھے تمھاری کوئی پرواہ نہیں، میں تم سے مطلقاً نہیں ڈرتا تم سے جو ہو سکے کر لو۔ اپنے ساتھ اپنے شریکوں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھی بلا لو۔ اور مل جل کر، مشورے کرکے، بات کھول کر پوری قوت کے ساتھ مجھ پر حملہ کرو۔ تمھیں قسم ہے جو میرا بگاڑ سکتے ہو اس میں کوئی کسر نہ رکھو۔ مجھے بالکل مہلت نہ دو۔ اچانک گھیر لو۔ میں حق پر ہوں اور حق کا ساتھی اللہ ہوتاہے۔ مجھے اس کی عظیم الشان ذات پر بھروسہ ہے۔ مجھے اس کی قدرت اور بڑائی معلوم ہے۔