سورة یونس - آیت 59

قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ پوچھیے کہ تمہارا کیا خیال ہے، اللہ نے تمہارے لیے جو روزی بھیجی ہے اس میں سے کسی کو حلال (٤٥) بناتے ہو اور کسی کو حرام، آپ پوچھیے کہ کیا اللہ نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے، یا تم اللہ پر افترا پردازی کرتے ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رزق کا وسیع تر مفہوم: رزق سے عموماً کھانے پینے کی اشیا ہی کو مراد لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگتے تھے (اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ عِلْمًا نَّافِعًا) یا اللہ مجھے نفع دینے والا علم عطا فرما۔ اصل یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کی جسمانی یا روحانی تربیت میں کوئی ضرورت پوری کرتی ہو وہ رزق ہے۔ (وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ) میں بھی رزق سے صرف مال و دولت ہی مراد نہیں جس سے نفلی یا فرضی صدقہ ادا کیا جائے۔ بلکہ اگر اللہ نے علم عطا کیا ہے تو وہ بھی رزق ہے۔ اسے بھی خرچ کیا جائے یعنی دوسروں کو سکھلایا جائے اگر صحت دی ہے تو کمزوروں کی مدد کی جائے حلال حرام کا اختیار صرف اللہ کا ہے۔ مشرکین بعض جانوروں کے مخصوص نام رکھ کر انھیں اپنے لیے حرام قرار دیتے تھے جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّ لَا سَآىِٕبَةٍ وَّ لَا وَصِيْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ وَّ لٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۔ (المائدۃ: ۱۰۳) ’’اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو شروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو، لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے۔‘‘