وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور ہر قوم کے لیے ایک رسول (٣٨) آیا ہے، پس جب ان کا رسول آجاتا تھا تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوجاتا تھا، اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا تھا۔
اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ہر اُمت میں ہم رسول بھیجتے رہے اور جب رسول اپنا فریضہ تبلیغ ادا کر چُکتا تو پھر ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیتے، یعنی پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو ہم بچا لیتے اور دوسروں کو ہلاک کر دیتے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (بنی اسرائیل: ۱۵) ’’اور ہماری عادت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب دینے لگیں‘‘ اور اس فیصلے میں ہر کوئی ظلم نہیں ہوتا تھا کیونکہ ظلم تو تب ہوتا جب بغیر گناہ کے ان پر عذاب بھیج دیا جاتا بغیر حجت تمام کیے ان کے مواخذہ کر لیا جاتا۔ (فتح القدیر) دوسرا مفہوم یہ ہے کہ قیامت والے دن جب ہر اُمت اللہ کی بار گاہ میں پیش ہوگی تو اس اُمت میں بھیجا گیا رسول بھی ساتھ ہوگا سب کے اعمال نامے بھی ہوں گے۔ فرشتے بھی بطور گواہ پیش ہوں گے اور یوں ہر امت اور اس کے رسول کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘ (تیسیر القرآن) ایک حدیث میں آتا ہے کہ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پہلے کیا جائے گا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہم اگرچہ سب کے بعد آنے والے ہیں، لیکن قیامت کو سب سے آگے ہوں گے اور تمام مخلوقات سے پہلے ہماری فیصلہ کیا جائے گا۔(بخاری: ۸۷۶، مسلم: ۸۵۵) ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گزشتہ رات اسی حجرے میں میرے سامنے میری ساری اُمت پیش کی گئی کسی نے پوچھا، اچھا موجودہ لوگ تو خیر، لیکن جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے وہ کیسے پیش کیے گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے مٹی کے جسم پیش کیے گئے جیسے تم اپنے کسی ساتھی کو پہچانتے ہو ایسے ہی میں نے انھیں پہچان لیا۔ (ابن کثیر)