وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور جب ان کے سامنے ہماری صاف اور کھلی آیتوں کی تلاوت (١٥) کی جاتی ہے، تو جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ، یا اسی میں کچھ تبدیلی لے آؤ، آپ کہہ دیجیے کہ میں اسے اپنی جانب سے نہیں بدل سکتا، میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوتی ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو یقینا ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
کفار مکہ اپنے آپ کو ملتِ ابراہیمی کا پیروکار سمجھتے تھے وہ اللہ کی ربوبیت کے تو پوری طرح قائل تھے مگر الوہیت کی صفات میں اپنے مختلف دیوی دیوتاؤں کو بھی رب تعالیٰ کا شریک کر لیا تھا جبکہ عقیدہ آخرت کے سخت منکر تھے، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ نہیں ہے۔ اور اسی زعم باطل کو بنیادی بنا کر انھوں نے دو مطالبات پیش کر دیے۔(۱) اس قرآن کے بجائے کوئی ایسا قرآن لاؤ جو ہمارے لیے بھی قابل قبول ہو۔ (۲) اس میں کچھ رد و بدل کر دو تاکہ ہمارے اور تمھارے دمیان صلح اور سمجھوتہ کی راہ ہموار ہو سکے، اور یہی وہ نظریہ ہے جسے آج کل بھی مختلف مذاہب کے درمیان صلح و آشتی کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے ’’یعنی اپنے مذہب کو چھوڑو نہ اور دوسروں کے مذہب کو چھیڑو نہ‘‘ اس کے متعلق اقبال نے کہا ہے: باطل دوئی پرست ہے حق لاشریک شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں کوئی اور قرآن لاؤں یا اس میں کوئی رد و بدل کروں میں تو وحی کی پیروی کا پابند ہوں۔ اور اگر میں کوئی ایسا کام کر گزروں تو پھر مجھ سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا۔ میں تو عذاب اُخروی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔