سورة التوبہ - آیت 120

مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اہل مدینہ اور ان کے آس پاس کے دیہاتیوں (٩٥) کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ جانے سے پیچھے رہ جاتے، اور اپنی جانوں کو ان کی جان پر ترجیح دیتے، اس لیے کہ اگر مجاہدین کو راہ جہاد میں پیاس لگی، یا کوئی تکلیف پہنچی، یا بھوک نے ستایا، یا کسی جگہ سے ان کی گزر نے کافروں کو ناراض کیا، یا دشمن سے کوئی چیز چھین لی، تو ان میں سے ہر ایک کے بدلے ان کے لیے ایک نیک کام لکھا گیا، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رسول اللہ کو اپنی جان سے عزیز سمجھنے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے: عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپکے ساتھ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یارسول اللہ آپ میر ے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں تم مومن نہیں ہوسکتے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا! اللہ کی قسم اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا ہاں اے عمر اب (صحیح بات بنی)۔ (بخاری: ۱۴) اہل مدینہ اور دیہاتیوں کو تنبیہ: وہ لوگ جو غزوہ تبوک میں حضور کے ساتھ نہیں گئے تھے، اللہ تعالیٰ ڈانٹ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سفر تبو ک کی صعوبتیں برداشت کریں اور مسلمان اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں، ٹھنڈے پانی پیئیں باغ کے سایہ میں بیٹھیں اور کھجور کے تازہ تازہ خوشے کھائیں بے شک وہ اس ثواب سے محروم رہ گئے جو مجاہدین فی سبیل اللہ کو ملا۔ مجاہد کے ہر فعل کے بدلے ایک عمل صالح اسکے اعمال نامہ میں لکھ دیا جاتا ہے خواہ یہ فعل غیر احتیاری ہو جیسے بھوک پیاس کو برداشت کرنا، تھکاوٹ ہونا، راستے کی تکلیف برداشت کرنا یہ سب اعمال صالح میں شمار ہونگے اور خواہ یہ فعل اختیاری ہوں جیسے سفر طے کرنا، دشمن سے کوئی علاقہ چھیننا یا اس سے جنگ کرکے کامیابی حاصل کرنا، ان سب کاموں پر اللہ کی طرف سے اجر عظیم ملتا رہتا ہے اور رب کی ذات کسی کی محنت ضائع نہیں کرتی۔