لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اللہ نے نبی اور مہاجرین اور ان انصار کی طرف توجہ فرمائی جنہوں نے مشکل وقت (٩٤) میں ان کی پیروی کی، جبکہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کجی آرہی تھی، پھر اللہ نے ان پر بھی توجہ فرمائی، بیشک وہ ان پر بہت ہی شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
تپتے صحرا اور مجاہدین کا سفر: اس آیت میں جنت تبوک کے سفر کو تنگی کا وقت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک تو موسم شدید گرم تھا، قحط سالی تھی، فصلیں پکنے کو تیار تھیں، بے سروسامانی کی حالت تھی، سفر طویل اور پر مشقت تھا۔ سامان رسد کی اتنی کمی تھی کہ دو دو آدمیوں میں ایک ایک کھجور بٹتی تھی حتیٰ کہ ایسا وقت آگیا کہ ایک کھجور ایک جماعت کو ملتی تھی چنانچہ ان حالات میں بعض سچے مسلمان بھی جہاد پر روانہ ہونے سے گھبرانے لگے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ان پر لازم کردی ۔ ان کے ایمان کی پختگی ان پر غالب آگئی اور وہ پورے عزم کے ساتھ جہاد پر نکل کھڑے ہوئے۔ نبی پر مہربانی سے مراد: یا تو اس سے وہ آیت مراد ہے جس کا آغاز اس مضمون کے ساتھ ہوتا ہے کہ ’’اللہ آپ کو معاف فرمائے ۔ آپ نے ایسے ہٹے کٹے، تنو مند اور کھاتے پیتے، منافقوں کو جہاد پر جانے کی رخصت کیوں دی۔‘‘ یا یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے آسمان پر ابر چھا گیا اور برسنے لگا اور خوب برسا، جن کے پاس جتنے برتن تھے سب بھر لیے، بارش رُک گئی تو دیکھا گیا کہ لشکر کے احاطے سے باہر ایک قطرہ بھی کہیں نہیں برسا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر مہربانی تھی۔