سورة التوبہ - آیت 107

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور منافقین بھی ہیں جنہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے اور کفر کی باتیں کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لیے ایک مسجد (٨٥) بنائی، اور تاکہ وہ ان لوگوں کے لیے کمین گاہ بنے جو پہلے سے ہی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے رہے ہیں، اور وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم نے تو صرف بھلائی کی نیت کی تھی، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ایک قصہ، ایک عبرت اور مسجد ضرار: مسجد ضرار منافقین مدینہ نے تعمیر کی تھی، اس کا مرکزی کردار ابوعامر راہب تھا۔ یہ انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ عیسائی عالم تھا اسکی درویشی زبانِ زد خلائق تھی۔ خصوصا ً قبیلہ خزرج کے لوگ اسکے زہد و درویشی کے بہت معتقدتھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو جس طرح عبداللہ بن اُبی منافق نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا سیاسی حریف سمجھ کر اسلام دشمنی کی منافقانہ روش اختیار کی اسی طرح ابو عامر راہب نے آپ کو اپنا روحانی حریف سمجھ کر عداوت کی راہ اختیار کی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے بعد لوگوں کی توجہ ابوعامر کی طرف سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مبذو ل ہوگئی تھی اور مسلمان قوت پکڑنے لگے یہاں تک کہ بدر کی لڑائی میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غالب رکھا۔ جس پر یہ کھلم کھلا عداوت پر اترآیا، اور مدینہ سے بھاگ کر کفار مکہ سے مل گیا اور اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی غزوہ بدر کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئیں، مثلاً جنگ اُحد، جنگ حنین، جنگ خندق اور جنگ تبوک ان میں مسلمانوں کے خلاف خود بھی شریک ہوا اور کفار کو بھی جنگوں پر ابھارنے میں بڑا موثر کردار ادا کرتا رہا۔ کفار کی طرف سے اسلام کے خلاف کوئی بھی سازش تیار ہوتی اس میں اسکا عمل دخل ضرور ہوتا تھا۔ مسجد ضرار کی تعمیر کا مقصد: جب غزوہ حنین میں کافروں کو شکست ہوگئی تو اس نے سمجھ لیا کہ اب عربوں کے اندر کوئی طاقت ایسی نہیں رہ گئی جو اسلام اور مسلمانوں کو کچل سکے۔ لہٰذا اس نے اپنے مذہب کے واسطہ سے قیصر روم کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا، منافقین مدینہ اسی کام میں معاون و ہمراز تھے۔ جب وہ اس غرض سے روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اسی نے منافقوں سے کہا کہ فوراً ایک مسجد تیار کرو، تاکہ میرے قاصد جوآئیں وہ وہیں ٹھہریں، وہیں مشورے ہوں اور ہمارے لیے وہ پناہ لینے اور گھات لگانے کی محفوظ جگہ بن جائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ باور کرایا کہ بارش، سردی اور اس قسم کے موقعوں پر بیماروں کو اور بوڑھوں کو زیادہ دور جانے میں دقت پیش آتی ہے، ان کی سہولت کے لیے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت جنگ تبوک میں مصروف تھے آپ نے واپسی پر نماز پڑھنے کا وعدہ فرمایا۔ لیکن واپسی پر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی منافقین کے مقاصد کو بے نقاب کردیا کہ اس مسجد کے ذریعہ دراصل وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، کفر پھیلانا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا اور اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے لیے کمین گاہ مہیا کرنا چاہتے ہیں۔