أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
کیا ان لوگوں نے نہیں جانا کہ بیشک اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ (٨٢) قبول کرتا ہے، اور وہی صدقات لیتا ہے، اور بلاشبہ اللہ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
منافق اور مسلمان کا تقابل: ان آیات میں دراصل ایک منافق اور غلطی سے گناہ کرنے والے ایک مسلمان کے درمیان فرق واضح کردیا گیا ہے۔ منافق: (۱) منافق گناہ کرکے جھوٹے بہانے بناتے اور قسمیں اٹھاتے ہیں۔ جبکہ مومن اپنے گناہ کا صاف صاف اقرار کرلیتے ہیں۔ (۲)مومن کی سابقہ زندگی اس بات کی شاہد ہوتی ہے کہ یہ گناہ نفس کی کمزوری سے واقع ہوا ہے۔ (۲)منافق کا سابقہ کردار بھی باعث عار و نار ہوتا ہے۔ (۳) توبہ صرف اسکی قبول ہوتی ہے جس کا سابقہ عمل درست ہو اور موجودہ گناہ بہ تقاضائے بشریت ہوگیا ہو۔ (۳) عادی مجرموں یعنی منافقوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ (۴) اللہ تعالیٰ صدقات صرف اُن کے قبول کرتا ہے جو بہ رضا و رغبت دیتے ہیں اور اسے قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (۴)منافق کے مجبوراً یا کراہت سے دیے ہوئے صدقات قبول نہیں ہوتے ۔ (۵) منافقوں کے صدقات اس لحاظ سے بھی قبول نہیں کہ صدقات مصائب کو ٹالتے اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اللہ کے ہاں چونکہ منافق کی مغفرت کی کوئی صورت نہیں لہٰذا اس کے صدقہ کی بھی قبولیت نہیں۔ (۶)توبہ کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوجاتا ہے کہ گناہ کے بعد توبہ اور معذرت کرنے والا کیسے اعمال بجالاتا ہے اگر ان میں ایمان و اخلاص آگیا تو سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا سے بچ نکلا۔اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تمہارے عملوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی نہیں دیکھتا، بلکہ ان کاعلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اور مومنوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوجاتا ہے یہاں مومنین کا اضافہ بھی ہے جن کو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتلانے سے علم ہوجاتا ہے۔