خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
آپ ان کے اموال کی زکوۃ وصول کیجیے (٨١) تاکہ ان کو پاک کیجیے اور اس کے ذریعہ ان کے باطن کا تزکیہ کیجیے، اور ان کے لیے دعا کرتے رہیے، بیشک آپ کی دعائیں ان کے لیے باعث سکون ہیں اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
توبہ کرنیوالوں سے صدقہ قبول کیجئے: صدقہ سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفلی صدقہ بھی ہوسکتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا جارہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کی تطہیر اور تزکیہ فرمادیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کاایک بڑا ذریعہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ کرنے والا اپنے دعویٰ ایمان میں صادق ہے۔ چنانچہ ان مسلمانوں نے بھی یہ سمجھا کہ چونکہ مال و دولت کی محبت ہی جہاد کے فریضہ میں کوتاہی سبب بنی ہے۔ اس لیے یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دینا چاہیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ’’سارا مال دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک تہائی مال کا صدقہ کافی ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو صدقہ قبول کرنے اور انکے حق میں دعا کرنے کا حکم دیا کیونکہ یہ سارے سچے مومن اور کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیر خواہ تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تمہارے صدقے کی اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کی کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک کھجور کے برابر صدقہ (بڑھتے بڑھتے) اُحد پہاڑ کی مثل ہوجاتا ہے۔ (ترمذی: ۶۶۲)