وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور بعض دیہاتی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اسے جرمانہ (٧٤) سمجھتے ہیں اور وہ تمہارے لیے مصیبتوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں، مصیبت انہی پر آئے، اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
بدوی منافق اور زکوٰۃ: دیہاتی منافق اسلام میں تو اس لیے داخل ہوئے کہ انھیں کچھ دنیوی مفادات حاصل ہوں گے مگر انھیں یہاں معاملہ مختلف نظر آنے لگا کہ ہم تو پہلے ہی اچھے تھے لہٰذا وہ پھر کسی گردش زمانہ کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کب اسلام کا خاتمہ ہو اور اس کی پابندیوں سے ان کی گردش جان چھوٹے بالخصوص زکوٰہ جسے وہ تاوان سمجھ کر انتہائی ناخوشی اور کراہت کے ساتھ ادا کرتے تھے، پھر جب ڈیڑھ دو سال بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، تو ان لوگوں نے موقع غنیمت جانا، بعض تو اسلام ہی سے پھر گئے اور کفر کا راستہ اختیار کیا اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا جن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا تھا۔ بدوی منافقوں کی رسوائی: زمانے کی گردش ان ہی پر پڑے گی کیونکہ وہی اسکے مستحق ہیں۔ چنانچہ جب انھوں نے اسلام سے ارتداد اختیار کیا اور زکوٰۃ سے انکار کیا تو ان کے خلاف جہاد کیا گیا۔ جس میں ان لوگوں کو ہزیمت ہوئی۔ اسلام کو اللہ نے سربلند کرنا ہی تھا۔ البتہ یہ لوگ مارے بھی گئے اور جو بچ گئے وہ ذلیل و رسوا ہوئے اور انھیں زکوٰۃ بھی پوری کی پوری ادا کرنا پڑی۔