وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
اور نہ ان کے لیے کوئی گناہ کی بات ہے جو آپ کے پاس آئے تاکہ آپ ان کے لیے سواری (70) کا انتظام کردیں، تو آپ نے کہا کہ میرے پاس تمہارے لیے کوئی سواری نہیں ہے، تو وہ واپس ہوگئے در آنحالیکہ ان کی آنکھوں سے غم کے مارے آنسو جاری تھے کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مال نہیں ہے
حقیقی معذوروں کی کیفیت: یہاں حقیقی مومنوں کا ذکر ہے جن کے پاس جہاد پر جانے کے لیے اپنی سواریاں بھی نہ تھیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کا بندوبست کر دیجئے۔ اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس وقت سواری کا کوئی بندوبست نہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب دے دیا جس كی وجہ سے انھیں اس قدر صدمہ ہواکہ ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں کہ وہ جہاد پر نہیں جاسکیں گے۔ ( رضی اللہ عنہم) گویا مخلص مسلمان جس کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالیٰ جو ہر ظاہر و باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنیٰ کردیا۔