فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں پیچے (62) رہ جانے والے اپنے (گھروں میں) بیٹھے رہ جانے پر خوش ہوگئے، اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ جہاد کرنے کو ناپسند کیا، اور لوگوں سے کہا کہ گرمی میں مت نکلو، آپ کہئے کہ جہنم کی آگ زیادہ گرم ہے، کاش کہ انہیں یہ بات سمجھ میں آجاتی
جہنم کی آگ کالی ہے: ان منافقین کا ذکر ہے جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے اور جھوٹے بہانے بناکر اجازت طلبی کرلی تھی۔ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں بیٹھنے پر خوش تھے۔ انھیں اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنا مشکل لگتا تھا انھوں نے دوسروں کو بھی روکنے کی کوشش کی کہ اتنی گرمی ہے کہاں نکلو گے؟ ایک طرف پھل پکے ہوئے ہیں، سائے بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف لوکے تھپیڑے چل رہے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلہ میں دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اگر انھیں یہ علم ہوتا تو کبھی پیچھے نہ رہتے۔ ایک روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور یہ سمندر کے پانی میں دو مرتبہ بجھائی ہوئی ہے۔ (مسند احمد: ۲/ ۲۴۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہوگئی، پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہوگئی، پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہوگئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے۔ (ترمذی: ۲۵۹۱، ابن ماجہ: ۴۳۲۰)