الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جو لوگ ان مومنین کی عیب جوئی کرتے ہیں جو اپنی خوشی سے صدقہ و خیرات (60) کرتے ہیں، اور ان مومنوں کے صدقے کا بھی مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس اپنی محنت کی کمائی کے علاوہ صدقہ کرنے کے لیے اور کچھ نہیں ہوتا، اللہ ان کا مذاق اڑائے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
غزوہ تبوک، اور چندہ: غزوہ تبوک کے موقعہ پر قحط سالی بھی تھی، فصلیں بھی ابھی پکی نہیں تھیں۔ سفر دور دراز کا اور مقابلہ رومیوں سے تھا۔ اسلحہ اور سواری کی بھی قلت تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فنڈ کے لیے پُر زور اپیل کی جس میں صاحب استطاعت یعنی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ وغیرہ نے دل کھول کر خرچ کیا۔ حتی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آدھا اثاثہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا پورا اثاثہ لے آئے۔ (ترمذی: ۳۶۷۵) نادار لوگوں نے اپنی حیثیت اور اغنیا، نے اپنی حیثیت کے مطابق اور رغبت کے مطابق چندہ دیا۔ ایک صحابی ابو عقیل نے رات بھر مزدوری کی جسکی اجرت ایک صاع کھجور تھی۔ ان میں سے آدھا صاع گھر لے گیا اور آدھا صاع لاکر حضور کی خدمت میں حاضر کردیا۔ (مسلم: ۱۰۱۸، بخاری: ۴۶۶۸) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آدھا صاع سے اس قدر خوشی ہوئی کہ آپ نے ’’کھجوریں ڈھیر کے اوپر پھیلا دیں۔ دراصل یہ نیت، شوق اور رغبت کی قدر تھی جس نے اپنے اہل و عیال کا پیٹ کاٹ کر ادھا صاع حاضر کردیا۔ منافقوں کی طعنہ زنی: اس آیت میں منافقین کی ایک نہایت قبیح حرکت کا ذکر کیا جارہا ہے جب مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اس میں حسب استطاعت حصہ لیتے جو زیادہ مال دیتے تو یہ کہتے کہ ریا کاری کر رہے ہیں۔ نمود و نمائش کررہے ہیں اور تھوڑا دینے والے کو کہتے کہ تیرے اس مال سے کیا بنے گا، یا اللہ تیرے اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ انھیں سخت عذاب دے گا۔