وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور (یاد کرو) جب ابراہیم (١٨٢) کو ان کے رب نے چند باتوں (١٨٣) کے ذریعہ آزمایا، تو انہوں نے ان سب کو پورا کردکھلایا، اللہ تعالیٰ نے کہا، میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، کہا : اور میری اولاد میں سے بھی۔ تو اللہ نے فرمایا : ظالم لوگ (١٨٤) میرے اس وعدہ میں داخل نہیں ہوں گے
اللہ تعالیٰ جب کسی کو بڑا کام سونپتا ہے تو پہلے بڑی آزمائش کرتا ہے ۔ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز ایسی نہیں تھی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو۔(۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام بت گر اور بُت فروش کے گھر پیدا ہوئے ۔ با پ کو احسن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی تو باپ نے گھر سے نکال دیا۔ آپ نے حق کی خاطر جلاوطنی کی تکلیفیں برداشت کیں۔ (۲)قومی میلہ کے موقع پر آپ نے قوم كے بتوں کو پاش پاش کردیا جس کی وجہ سے آپ كو آگ میں جلانے کا فیصلہ ہوا آپ نے بخوشی اس کو منظور کیا ۔ (۳)اپنی بیوی حاجرہ اور دودھ پیتے بیٹے کو اللہ کے حکم پر بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑدیا نہ کھانے پینے کا بندوبست نہ آبادی۔ (۴) بوڑھی عمر میں ملے ہوئے بچے حضرت اسماعیل جب ذرا جوان ہوئے تو ان کو قربان کردینے کا حکم ہوا۔ لیكن آپ ہر آزمائش میں پورے اترے اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا جہان کا امام بنادیا اور قیامت تک کے لیے نبوت کا سلسلہ آپ ہی کی اولاد سے منسلک کردیا۔ امانت کا حقدار کون؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب پوچھا کہ میری اولاد سے امامت کا وعدہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ امامت کا تعلق تمہاری اس اولاد سے ہے جو صالح ہوگی، گناہ گاروں کے لیے ایسا کوئی وعدہ نہیں اور یہاں سے ہی یہود کے اس غلط عقیدہ کی تردید ہوگئی جو یہ سمجھتے تھے کہ ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں اس لیے ہمیں عذاب اخروی نہ ہوگا۔ امامت کا معیار خاص لوگ ہیں جو نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ بنی اسرائیل نے ظلم کیا تو اللہ تعالیٰ نے نبوت بنی اسماعیل کو عطا کردی۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ قیادت مل جائے تو مرکز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ خانہ كعبہ اللہ کا گھر امن کا گھر اور اسلام کا مرکز بن گیا۔