أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا ان تک ان لوگوں کی خبریں نہیں پہنچی ہیں جو ان سے پہلے گذر چکے (53) ہیں، یعنی قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین ان بستیوں کی خبریں جو الٹ دی گئی تھیں، ان کے انبیاء ان کے لیے کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، پس اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا، بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے
ماضی سے عبرت حاصل کرو: یہاں منافقوں کو سنایا جا رہا ہے کہ اپنے سے پہلے جیسوں کے حالات پر نظر ڈالو اور دیکھو کہ نبیوں کی تکذیب کیا رنگ لاتی ہے۔ اس آیت میں چھ قوموں کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا مسکن ملک شام رہا ہے۔ (۱)قوم نوح علیہ السلام جو طوفان میں غرق کردی گئی۔ (۲)قوم عاد جو طاقت، قوت میں ممتاز ہونے کے باوجود باد تُند سے ہلاک کردی گئی۔ (۳) قوم ثمود جسے آسمانی چیخ سے ہلاک کیا گیا۔ (۴) قوم ابراہیم جس کے بادشاہ نمرود بن کنعان بن کوش کو مچھر سے مرواد یا گیا۔ (۵)اصحاب مدین حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم جنھیں چیخ، بادلوں کے سائے اور زلزلے سے ہلاک کردیا گیا۔ (۶)قوم لوط علیہ السلام جن کی بستی کا نام ’’سدوم‘‘ تھا۔ ان پر ایک تو آسمان سے پتھر برسائے گئے دوسرے ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے دے مارا گیا۔ اللہ ظلم نہیں کرتا: یعنی ان سب قوموں کے پاس ان کے پیغمبر جو ان ہی کی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا آئے لیکن انھوں نے انکی باتوں کو کوئی اہمیت نہ دی بلکہ تکذیب و عناد کا راستہ اختیار کیا ۔ جس کا نتیجہ بالآخر عذاب الٰہی کی شکل میں نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے تو حق واضح کردیا تھا، کتاب اُتاری رسول بھیجے حجت تمام کردی۔ غرض یہ نافرمان لوگ یوں ہی بلا وجہ عذاب الٰہی کا شکار نہیں ہوئے۔