الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
جن کو ہم نے کتاب (١٨٠) دی ہے، اس کی ایسی تلاوت کرتے ہیں جیسی ہونی چاہئے، وہی لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے، وہی خسارہ اٹھانے والے ہوں گے
جیسا کہ اسے پڑھنے کا حق ہے ، اس سے مراد قرآن پاک کے الفاظ کی پہچان اور صحیح ادائیگی ہے اور جو ایمان رکھتے ہیں اس کتاب پر وہ اسے پڑھنے کا حق ادا کرتے ہیں۔ جو تلاوت کا حق ادا نہیں کرتے وہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ قرآن پڑھنے سے مراد: (۱) الفاظ کے معنی جاننا۔ (۲) اللہ کی آیات میں غورو فکر کرنا۔ (۳) اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا۔ (۴) دوسروں تک اس کا پیغام پہنچانا۔ جب تک اس کو سمجھ کر نہیں پڑھیں گے اس کاحق ادا نہیں ہوگا۔ اور جو انکار کرتا ہے یعنی سمجھ کر نہیں پڑھتا وہ دنیا میں اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے محروم رہتا ہے اور آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ خوشگوار زندگی کے لیے مال دولت ،شہرت نہیں بلکہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق زندگی گزاریں۔ اطمینان اللہ کی دیے ہوئے ضابطے میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے بیتاب رہتے تھے کہ انھوں نے حقیقت کو پالیا تھا۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن پڑھا کرو یہ قیامت کے دن سفارشی بن کر آئے گا روزہ اور قرآن بندے کے حق میں سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ ‘‘ (مسلم: ۸۰۴) تلاوت كا حق: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت کے ذکر پر جنت کا سوال کیا جائے گا۔ (۲) حلال و حرام کو جاننا اور ان کو ان کی جگہ پر رکھا جائے۔ قرآن کریم کی اتباع کرنے والا جنت کے باغوں میں اترنے والا ہے۔ قرآن کریم کے پڑھنے والے کو کہا جائے گا کہ پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسے تم دنیا میں پڑھتے تھے تیرا ٹھکانہ وہیں ہوگا جہاں تو اسے ختم کرے گا۔ (ابو داؤد: ۱۴۶۶) جو پانچ نمازوں کی پابندی کرتا ہے اُسے غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا اور جو سو آیات ایک رات میں تلاوت کرتا ہے اُسے غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا۔ حضرت عائشہ كہتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قرآن مجید کا ماہر ہے وہ نیک بزرگ اور کاتب فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن پڑھتے ہوئے اٹکتا ہے اُسے دوہرااجر ہے۔ (ابوداؤد: ۱۴۵۶)