وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ
اور اگر ان کا ارادہ نکلنے (36) کا ہوتا تو اس کے لیے تیار کرتے، لیکن اللہ نے (جہاد کے لیے) ان کی روانگی کو پسند نہیں کیا اس لیے انہیں روک دیا، اور ان سے کہا گیا کہ تم بھی عذر والوں کے ساتھ بیٹھے رہ جاؤ
منافقوں کی سچائی کا معیار: اگر عذر کرنے والوں نے جہاد کی تیاری کرلی ہوتی تو پھر کوئی ایسا حادثہ پیش آجاتا جسکی وجہ سے وہ جہاد پر جانے سے معذور ہوجاتے تو اس صورت میں انکی سچائی پر اعتماد کیا جاسکتا تھا، اور سچی بات یہ ہے کہ دراصل اللہ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا، کیونکہ یہ بڑے بزدل اور ڈرپوک ہیں جس سے اسلامی فوج کو کسی فائدے کی بجائے نقصان کا خطرہ زیادہ ہے۔ چنانچہ بچوں اور عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھ رہنا ہی ان کے نصیب ہوا۔ منافقوں کے فتنے میدان جنگ میں: مثال ہے پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا۔ یہ اس مثال کو پورا کر دکھاتے مثلاً جنگ سے فرار کی راہ اختیار کرکے دوسروں کے بھی حوصلے توڑ دیتے یا دشمن اسلامی لشکر کے حالات سے مطلع کردیتے یا ان سے سازباز شروع کردیتے، اسلامی لشکر میں پھوٹ ڈال دیتے، بے بنیاد افواہیں پھیلا کر اسلامی لشکر میں بد دلی پھیلانے لگتے لہٰذا اللہ کی مشیت میں ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔