لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اگر کوئی فوری فائدہ (34) ہوتا، اور سفر مختصر ہوتا تو وہ (منافقین) آپ کے پیچھے ہو لیتے، لیکن ان کے لیے مسافت لمبی اور کٹھن ہوگئی، اور وہ اللہ کی قسم کھا جائیں گے کہ اگر ہمارے لیے ممکن ہوتا تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے، یہ خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ وہ لوگ نرے جھوٹے ہیں
منافقوں کے عذر: یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہورہا ہے۔ جنھوں نے عذر معذرت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی تھی۔ حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہ تھا۔ اگر تھوڑی سی محنت کے بعد منافقوں کو مال غنیمت ہاتھ آجانے کی توقع ہوتی اور سفر بھی اتنا طویل اور مشقت والا نہ ہوتا تو یہ منافق آپکے ساتھ نکلنے کو تیار ہوتے۔ شدید گرمی، سواریوں کی کمی، دبدبے والی حکومت سے مقابلہ جہاں فتح کی بجائے ناکامی کے آثار زیادہ دکھائی دیتے ہیں ایسی صورت میں یہ آپکا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔ اب یہ قسمیں ہی کھائیں گے اور اُدھر اُدھر کی باتیں عذر کے طور پر پیش کریں گے اللہ فرماتا ہے کہ ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انھوں نے تو اپنے آپ کو غارت کرلیا ہے۔