أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم نے گمان (14) کرلیا ہے کہ تم اپنے حال پر چھوڑ دئیے جاؤ گے، حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے علاوہ کسی کو اپنا جگری دوست نہیں بنایا، اور اللہ تمہارے تمام کرتوتوں کی خوب خبر رکھتا ہے
مسلمان بھی آزمائے جائیں گے: یہ خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو نئے نئے ایمان لائے تھے ورنہ انصار و مہاجرین تو کئی بار اس معیار پر پورے اُتر چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ امتحان کے بغیر مسلمان بھی چھوڑدیے جائیں گے۔ سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر کردینا بھی ضروری ہے پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں۔ اور ظاہر و باطن میں اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور حمایت کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ يَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (آل عمران: ۱۴۲) ’’کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہادکرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰى مَا اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ﴾ (آل عمران: ۱۷۹) ’’اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ایسا ہی چھوڑ دے اور امتحان کرکے یہ معلوم نہ کرے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے۔‘‘ گوکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔ ہر حالت سے بھی وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتاہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا، سچا جھوٹا ظاہر کردے۔ اس کے سوا کوئی معبود،کوئی پروردگار نہیں، اور نہ اسکی قضاوقدر اور ارادے کو کوئی بد ل سکتا ہے۔