كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
مشرکوں کا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کیسے کوئی عہد و پیمان (8) ہوسکتا ہے، ہاں، مگر جن کے ساتھ مسجد حرام کے قریب تمہارا معاہدہ ہوا، تھا، اگر وہ تمہارے ساتھ عہد پر قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ اس پر قائم رہو، بے شک اللہ تقوی والوں کو پسند کرتا ہے
ایفائے عہد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے۔ اور بد عہدی ایک کبیرہ گناہ ہے۔ یہ عہد خواہ اللہ سے ہو یا کسی بندے سے، لین دین سے ہویا نکاح و طلاق سے یا صلح و جنگ سے ایک شخص کا دوسرے سے یا کسی قوم کا دوسری قوم سے، بہرحال اسے پورا کرنا واجب ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو کہتے ہیں کہ مشرک اپنے عہد و پیمان پرقائم رہنے والے ہی نہیں، ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طر ف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی ذیقعد ۶ ہجری تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدے کو نبھایا یہاں تک کہ قریشیوں کی طرف سے یہ معاہدہ توڑا گیا۔ ان کے حلیف بنوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بنو خزاعہ پر چڑھائی کردی۔ بلکہ حرم میں بھی انھیں قتل کیا۔ اس بنا پر رمضان سنہ ۸ ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کردی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ فتح کرایا اور انھیں آپ کے بس میں کردیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود غلبہ ان میں سے جنھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا سب کو آزاد کردیا۔