وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے انہیں بارہ خاندانوں (95) میں تقسیم کر کے بارہ جماعتیں بنا دیں، اور جب موسیٰ سے اس کی قومنے پانی کا مطالبہ کیا، تو ہم نے انہیں بذریعہ وحی (96) بتایا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارئیے، چنانچہ اس سے بارہ چشمے ابل پڑے، تمام لوگوں نے اپنے اپنے گھاٹ پہچان لیے، اور ہم نے ان پر بادل کا سایہ کردیا، اور ان پر من و سلوی اتارا، اور کہا کہ ہم نے تمہیں جو اچھی چیزیں بطور روزی دی ہیں انہیں کھاؤ، اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، بلکہ خود اپنے حق میں ظلم کیا
بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے: حضر ت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، جس کی بنا پر ان کے بارہ قبیلے وجود میں آئے، اور ہر قبیلے پر ایک نگران مقرر کیا جسکی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے قبیلے کے دینی تمدنی اور معاشی مسائل کی نگرانی کرے، اور ان لوگوں کو راہ راست پر رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرے اور بنی لاوی قبیلہ جس سے حضر ت موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام خود بھی تعلق رکھتے تھے ان سب کے مسائل کی نگرانی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین احسانات کاتذکرہ فرمایا ہے، یہ وہ دور تھا جب بنی اسرائیل کو چالیس سال تک صحرائے سینا میں روک دیا گیا تھا ۔کیو نکہ ان لوگوں نے جہاد سے انکار کرکے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے، چونکہ یہ ریگستانی علاقہ تھا، یہاں نہ سایہ، نہ مکان نہ کھانے پینے کا سامان تھا، اس لیے (1) اللہ تعالی نے دھوپ کے وقت بادلوں کا سایہ کیا (2) کھانے کے لیے من و سلویٰ اتارا، (3) پانی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا پہاڑ پر مارنے سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، جس پر ایک ایک قبیلہ قابض ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کی بزدل اور پسی ہوئی قوم کی تربیت کر نا چاہتے تھے، کہ صحرائی زندگی کی کھلی فضا میں ان کے اندر جرأت اور دلیری پیدا ہو، پرانی بزدل نسل مر کھپ جائے اور نئی نسل آزاد فضاؤں میں جرأت مند پیدا ہو اور جس جہاد کا اللہ نے حکم دیا تھا اُس کے لیے تیار ہو سکیں ۔ بنی اسرائیل کی نا فرمانیاں: بنی اسرائیل نے اللہ کے احسانات کا شکرادا کرنے كے بجائے نافرمانیاں شروع کردیں، اللہ نے حکم دیا تھا کہ من وسلویٰ ذخیرہ نہ کرنا، دوسروں کا حق نہ مارنا لیکن انھوں نے اسکی نا فرمانی کی، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی نا فرمانیوں سے ہمارا کیا بگڑ سکتا ہے اُلٹا انھیں ہی نقصان اُٹھانا پڑے گا۔