فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ
تو ہم نے ان سے انتقام لیا، اور انہیں دریا برد (69) کردیا، اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور اس کی جانب سے یکسر غافل تھے
جب یہ لوگ اپنی سر کشی اور خود پسندی میں حد سے بڑھ گئے اور بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان لانے اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا ۔ آل فرعون کو غرق کردیا، ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہجرت کا حکم دیا جب وہ یعنی بنی اسرائیل سمندر کے کنارے پہنچے تو انھیں فرعون کے تعاقب کرنے کی خبر پہنچی ۔ وہ سب گھبرا گئے اس نازک صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی، کہ وہ اپنا عصاسمندر میں ماریں، عصامارنے کی دیر تھی کہ اللہ کے حکم سے سمندرکا پانی وہیں تھم گیا، اور درمیان میں خشک راستہ بن گیا، بنی اسرائیل اس راستے سے گزر کر جب سمندرکے دوسرے کنارے پر پہنچے تو پیچھے سے فرعونیوں نے بھی اپنے گھوڑے اسی خشک راستے پر ڈال دئیے، جب یہ لشکر عین سمندر کے وسط میں پہنچا،تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا کہ وہ مل جائے، اس طرح فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو کر اپنے اس انجام بد کو پہنچا۔