سورة البقرة - آیت 101

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول آیا جو تصدیق کر رہا تھا اس کتاب کی جو ان کے پاس تھی، تو اہل کتاب کی ایک جماعت نے الہ کی کتاب اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دی (١٥٤) جیسے کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رسول تو انسانوں کا تعلق اللہ سے جوڑنے کے لیے آتے ہیں۔ اس آیت میں یہود کے کردار پر گرفت کی گئی ہے کہ تورات میں نبی آخرالزماں کی واضح نشانیاں ہونے کے باوجود اس کو چھپانے کی کوشش کی حالانکہ وہ آپ کوخوب اچھی طرف پہچانتے تھے، پھر ایسے لاتعلق ہوگئے جیسے وہ انھیں کبھی جانتے نہ تھے۔ جب قوموں پر زوال آتا ہے تو کتاب کو لکھ کر تعویذ بناکر اپنے لیے تسلی کرلیتے ہیں۔ کتاب عمل کی پکار ہے۔ کامیابی کا ذریعہ ہے۔ آج کے علماء وظائف میں الجھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۔اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ﴾(النجم: ۳، ۴ )’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی م رضی سے لب کشائی نہیں کرتے وہی کہتے ہیں جو اللہ نے کہا ہے۔‘‘ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے: ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر بہتان باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘(بخاری: ۱۲۹۱)