فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ
پس انہیں زلزلہ نے آلیا جس کے نتیجہ میں سب اپنے گھروں میں اوندھے منہ گر کر مر گئے
اللہ کا عذاب قوم ثمود پر: اونٹنی سے نجات پاکر ان لوگوں نے خوشیاں منائیں اور اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حضرت صالح علیہ السلام کوعذاب کی اطلاع فرمادی۔ چنانچہ حضرت صالح نے ان سے فرمایا کہ بس اب تمہارے لیے تین دن مہلت ہے تم پر اللہ کا عذاب آنے ہی والا ہے جمعرات کے دن ثمودیوں کے چہرے زرد پڑ گئے، جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہوگئے، اور ہفتے کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا ان کے چہرے سیاہ پڑگئے، چوتھا دن اتوار کو صبح ہی صبح آسمان سے سخت کڑا کا ہوا جن کی دہشت انگیز چنگھاڑ نے ان کے کلیجے پھاڑ دیے۔ ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا، ایک ہی گھڑی میں ایک ساتھ ان سب کو ڈھیر کردیا۔ اورا للہ کی شان دیکھئے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لیے ایک کافرہ عورت بچا لی گئی۔ تفسیر طبری میں ہے یہ عورت بھی حضرت صالح کے خلاف عداوت سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں، ادھر عذاب آیا ادھر اسکے پاؤں کھل گئے۔ یہ دوڑتی ہوئی دوسرے شہر پہنچی وہاں جاکر واقعہ بیان کیا اور پینے کے لیے پانی مانگا۔ ابھی پوری طرح پیاس بھی نہ بجھی تھی کہ عذاب الٰہی نے آکر اسے بھی وہیں ڈھیر کردیا۔ (۲) غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے حجر کے مقام پر رُکے، صحابہ کو وہ کنواں بھی دکھایا جہاں سے اونٹنی پانی پیتی تھی، صحابہ ان کھنڈرات کو بطور تفریح دیکھنے چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے مقامات جہاں پر اللہ کا عذاب ہوچکا ہو مقام عبرت ہوتے ہیں وہاں داخل ہو تواللہ سے ڈرتے ہوئے، روتے ہوئے داخل ہو اور وہاں سے جلد نکل جایا کرو مبادا ایسا عذاب تم پر بھی آجائے جو ان پر آیا ہے۔ (مسند احمد: ۲/ ۷۴، ح: ۵۴۴۰، بخاری: ۴۳۳)