قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ۖ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
انہوں نے کہا، کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادے بندگی کرتے تھے، پس اگر تو سچا ہے تو وہ عذاب لے آ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے
آباء اجداد کی تقلید ہر دور میں گمراہی کی بنیاد رہی ہے قوم عاد نے بھی سرکشی ضد اور عناد کی وجہ سے یہی دلیل پیش کی، کہ کیا ہم اللہ واحد کی پرستش کریں اور اپنے باپ داداؤں کے پرانے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ پھر کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لاسکتے ہو تو لے آؤ، بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید کی یہ بیماری عام ہے۔ جس طرح قریش نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کے جواب میں کہا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ (الانفال: ۳۲) ’’اے اللہ اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا، یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر بھیج دے۔‘‘ یعنی شرک کرتے کرتے مشرک کی مت بھی ماری جاتی ہے۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ یہ کہا جاتا، یا اللہ اگر یہ سچ ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرما۔