ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
تم لوگ اپنے رب کو نہایت عجز و انکساری اور خاموشی کے ساتھ پکارو (42) بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے
دعا کے آداب: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں انکی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے چار چیزوں کی تلقین کی ہے: (۱) اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری اور خفیہ طریقے سے دعا کرو ۔ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کردیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے، جیسے تم پکار رہے ہو وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے۔‘‘(بخاری: ۲۹۹۲، مسلم: ۲۷۰۴) (۲) دعا میں زیادتی نہ کی جائے یعنی اپنی حیثیت اور مرتبے سے بڑھ کر دعا نہ کی جائے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ایک لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت اور اسکی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اسکی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چاہی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ عنقریب کچھ لوگ ہونگے جو دعا میں حد سے گزر جائیں گے۔ (ابن کثیر: ۲/ ۳۵۸) (۳) اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلایا جائے یعنی اللہ کی نافرمانیاں کرکے فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیا جائے، فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی چھوڑ کر اپنے نفس یا دوسروں کی اطاعت شروع کردے اپنے اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، تمدن کو دوسروں کے بنائے ہوئے اصول پر چلائے یہی بنیادی فساد فی الارض ہے جس سے مسائل سلجھنے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ (۴) دعا مانگتے ہوئے اس کے عذاب کا ڈر بھی دل میں ہو اور اسکی رحمت کی اُمید بھی، اس طریقے سے دعا کرنے والے محسنین ہیں یقیناً اللہ کی رحمت ان کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کرنے کا، دعا کرنے کا، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کے عذابوں سے ڈر کر اور اسکی نعمتوں کے اُمید وار بن کر پکارو۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے جو اسکے حکام بجالاتے ہیں منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾ (الاعراف: ۱۵۶) ’’اور میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے۔‘‘ لیکن میں اسے مخصوص کردوں گا پرہیز گاروں کے لیے کیونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے اس لیے اللہ نے اپنا فیصلہ کردیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے۔ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ فرماتے تھے: ’’میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو طہارت میں اور دعا مانگنے میں حد سے زیادہ مبالغہ کریں گے۔‘‘ (ابو داؤد: ۹۶، ابن ماجہ: ۳۸۶۴) جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے تین دن پہلے فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص کو مرتے وقت اللہ سے حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔‘‘ (مسلم: ۲۸۷۷)