وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا، اور طور پہاڑ (١٤٦) کو تمہارے اوپر اٹھایا (اور کہا) کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے پوری قوت کے ساتھ تھام لو اور سنو، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم کرنے کے نہیں، اور ان کے دلوں میں، ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت (١٤٧) بٹھا دی گئی۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو تمہارا ایمان تمہیں بڑی بری بات (١٤٨) کا حکم دیتا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تورات کے احکام کو توجہ سے سنو لیکن چونکہ ان کے دلوں میں بچھڑے کی پوجا نے گھر کرلیا ہوا تھا۔ اس لیے انھوں نے اللہ کے حکم کی کوئی پرواہ نہ کی: (۱) اگر انسان اللہ کے احکام کو غور سے سنے تو وہ ضرو ر حق کو پالیتا ہے۔ (۲) توجہ سے سننے سے ہی حق دل و دماغ میں اترتا ہے۔ (۳) پھر تمناؤں کا مرکز بدل جاتا ہے ۔(۴) حق انسان کے اندر انقلاب برپا کردیتا ہے۔ (۵) پھر تعصب اور مصلحت کی دیواریں گر جاتی ہیں۔ (۴) پھر انسان اپنے آپ کو حق کے ساتھ شامل کرلیتا ہے۔ اور حق کا گواہ بن جاتا ہے۔ (۷) جب انسان توجہ سے سُن لے تو پھر مان بھی لیتا ہے اور پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ (۸) جو اپنی مصلحتوں کی خاطر حق چھوڑ دیتا ہے اس کے لیے کوئی معافی نہیں۔ (۹) پھر اللہ تعالیٰ انسان کے دلوں میں خواہشات کی محبت بٹھا دیتا ہے پھر انسان میں انا پرستی اور خواہش پرستی پیدا ہوتی ہے۔ میں بھی انا پرست ہوں تو بھی انا پرست ہے اللہ کا تعلق ہمیشہ رہنے والا ہے باقی ہر چیز فانی ہے۔ دنیاوی تعلیم بھی ضروری ہے مگرفنا ہونے والی ہے۔ جبکہ اللہ کے کلام سے تعلق دنیا میں بھی کام آئے گااور آخرت میں بھی ۔قرآن میں ہے یقیناً وعدہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا کوئی دین نہیں جس کا کوئی عہد نہیں ۔(مسند احمد: ۳/ ۱۳۵، ح: ۱۲۳۸۳) آپ نے عہد کیا تھا کہ اللہ کا پیغام پوری دنیا تک پہنچانا ہے اور آپ نے یہ وعدہ پورا کیا۔ جو شخص کان لگاکر کسی آیت کو سنے تو اس کے لیے کثرت سے پڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر وہ اسے پڑھے تو یہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔