سورة الانعام - آیت 128

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جس دن اللہ تمام (جنوں اور انسانوں) کو اکٹھا (127) کرے گا اور کہے گا کہ اے جنوں کی جماعت ! تم نے تو انسانوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنا فرمانبردار بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہم میں سے ایک نے دوسرے سے فائدہ اٹھایا تھا، اور ہم اس میعاد کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا، اللہ کہے گا کہ تمہارا ٹھکانا آگ ہے جس میں ہمیشہ کے لیے رہو گے، مگر اللہ جو چاہے گا (128) (اسے ہونا ہے) (یعنی جسے چاہے گا اپنی مرضی سے جہنم سے نکال دے گا) بے شک آپ کا رب بڑی حکمتوں والا، بڑے علم والا ہے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

57: انسان تو شیطانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ ان کے بہکائے میں آ کر اپنی نفسانی خوہشات کی تکمیل کی اور وہ گناہ کیے جن سے ظاہری طور پر لذت حاصل ہوتی تھی۔ اور شیطان انسانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ انہیں گمراہ کر کے خوش ہوئے کہ یہ لوگ خوب اچھی طرح ہمارے قابو میں آگئے ہیں۔ در اصل وہ یہ کہہ کر اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہوں گے، اور غالباً آگے معافی بھی مانگنا چاہتے ہوں گے، لیکن یا تو اس سے آگے کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوگا، یا چونکہ معافی کا وقت گذر چکا ہوگا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ فرمائیں گے کہ اب معافی تلافی کا وقت گذر چکا، اب تو تمہیں جہنم کی سزا بھگتنی ہی ہوگی۔ 58: اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ؛ لیکن بظاہر استثناء کے اس جملے سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے : ایک یہ کہ کافروں کے عذاب وثواب کا فیصلہ کسی سفارش یا اثر ورسوخ کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا تمام ترفیصلہ خود اللہ تعالیٰ کی مشیت کی بنیاد پر ہوگا اور یہ مشیت اس کی حکمت اور علم کے مطابق ہوگی جس کا ذکر اگلے جملے میں ہے، دوسری حقیقت جو اس استثناء سے ظاہر کی گئی ہے یہ ہے کہ کافروں کو ہمیشہ جہنم میں رکھنا (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کی کوئی مجبوری نہیں ہے لہذا اگر بالفرض اس کی مشیت یہ ہوجائے کہ کسی کو باہر نکال لیا جائے تو یہ عقلی اعتبار سے ناممکن نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کی اس حیثیت کے خلاف کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا یہ اور بات ہے کہ اس کی مشیت اس کے علم اور حکمت کے مطابق یہی ہو کہ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں۔