فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ
پس جب رات آگئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا، کہا یہ میرا رب (71) ہے، پس جب وہ ڈوب گیا، تو کہا میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں
28: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے جس علاقے نینوا میں پیدا ہوئے تھے وہاں کے لوگ بتوں اور ستاروں کو خدا مان کر ان کی عبادت کرتے تھے، ان کا باپ آزر بھی نہ صرف اسی عقیدے کا تھا بلکہ خود بت تراشا کرتا تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شروع ہی سے توحید پر ایمان رکھتے تھے اور شرک سے بیزار تھے، لیکن انہوں نے اپنی قوم کو غور وفکر کی دعوت دینے کے لئے یہ لطیف طریقہ اختیار فرمایا کہ چاند ستاروں اور سورج کو دیکھ کر پہلے اپنی قوم کی زبان میں بات کی، مقصد یہ تھا کہ یہ ستارہ تمہارے خیال میں پروردگار ہے، آؤ دیکھتے ہیں کہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ چنانچہ جب ستارہ بھی ڈوبا اور چاند بھی اور آخر میں سورج بھی تو ہر موقع پر انہوں نے اپنی قوم کو یاد دلایا کہ یہ تو ناپائیدار اور تغیر پذیر چیزیں ہیں، جو چیز خود ناپائدار ہو اور اس پر تغیرات طاری ہوتے رہتے ہوں، اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ پوری کائنات کی پرورش کررہی ہے، کیسی غیر معقول بات ہے، لہذا انہوں نے چاند ستاروں یا سورج کو جو یہ کہا تھا کہ یہ میرا رب ہے وہ اپنے عقیدے کے مطابق نہیں بلکہ اپنی قوم کے عقیدے کی لغویت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا تھا۔