مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
مسیح بن مریم (101) ایک رسول تھے اور کچھ نہیں، ان سے پہلے بہت سے انبیاء آچکے تھے، اور ان کی ماں ایک نیک اور پارسا عورت تھیں، دونوں ہی کھانا کھایا (102) کرتے تھے، آپ دیکھ لیجئے کہ ہم اپنی نشانیاں کس طرح ان کے لیے کھول کر بیان کرتے ہیں، پھر دیکھئے کہ وہ کس طرح گم گشتہ راہ ہوئے جا رہے ہیں
50: صدیقہ صدیق کا مونث کا صیغہ ہے، اس کے لفظی معنی ہیں بہت سچا، یا راست باز، اصطلاح میں صدیق عام طور سے ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی پیغمبر کا افضل ترین متبع ہوتا ہے اور نبوت کے بعد یہ سب سے اونچا مرتبہ ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام دونوں کے بارے میں یہاں قرآن کریم نے یہ حقیقت جتلائی ہے کہ وہ کھانا کھاتے تھے۔ کیونکہ تنہا یہ حقیقت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ خدا نہیں تھے۔ ایک معمولی سمجھ کا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی بشری حاجتوں سے بے نیاز ہو۔ اگر خدا بھی کھانا کھانے کا محتاج ہو تو وہ خدا کیا ہوا۔ 51: قرآن کریم نے یہاں مجہول کا صیغہ استعمال کیا ہے، اس لیے ترجمہ یہ نہیں کیا کہ ” وہ اوندھے منہ کہاں جا رہے ہیں“۔ بلکہ ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ” انہیں اوندھے منہ کہاں لیجایا جا رہا ہے“ اور بظاہر مجہول کا یہ صیغہ استعمال کرنے سے اشارہ اس طرف مقصود ہے کہ ان کی نفسانی خواہشات اور ذاتی مفادات ہیں جو انہیں الٹا لے جا رہے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔