وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ
(اور ہم نے آپ پر یہ حکم بھی نازل کیا کہ) آپ ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ (73) کیجیے جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے، اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے، اور ان سے ہوشیار رہئے، کہیں آپ کو کسی ایسے حکم سے بہکا نہ دیں جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے، اور اگر وہ لوگ اعراض کریں، تو جان لیجئے کہ اللہ چاہتا ہے کہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دے، اور بے شک اکثر لوگ فاسق و نافرمان ہوتے ہیں
41: یہ حکم اس صورت میں ہے جب غیر مسلم لوگ اسلامی حکومت کے باقاعدہ شہری بن جائیں جن کو فقہی اصطلاح میں ذمی کہا جاتا ہے یا اس صورت میں جب وہ اپنی رضامندی سے اپنا فیصلہ مسلمان قاضی سے کروانا چاہیں، ایسی صورت میں مسلمان قاضی عام ملکی قوانین میں فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق کرے گا، البتہ ان کے خالص مذہبی معاملات عبادات، نکاح، طلاق اور وراثت میں انہیں اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا مگر یہ فیصلہ انہی کے افراد کریں گے۔ 42: بعض گناہ اس لیے فرمایا کہ تمام گناہوں کی سزا تو آخرت میں ملنی ہے۔ البتہ اللہ اور رسول کے فیصلے سے منہ موڑنے کی سزا ان کو دنیا میں بھی ملنے والی ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد ان کی عہد شکنی اور سازوں کے نتیجے میں ان کو جلا وطنی اور قتل کی سزائیں دنیا ہی میں مل گئیں۔