صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیے، ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور نہ ان کی جو گمراہ ہوگئے۔
(تفسیر آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ کا بقیہ حصہ): (2)۔ صفات رحمت و جمال : ثانیاً تنزیہہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ سے بھی قرآن کے تصور پر نظر ڈالی جائے تو اس کی شان تکمیل نمایاں ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔ مجوسی تصور نے نور و ظلمت کی دو مساویانہ قوتیں الگ الگ بنا لی تھیں۔ مسیحی تصور نے رحم و محبت پر زور دیا تھا۔ لیکن جزا کی حقیقت مستور ہوگئی تھی۔ اسی طرح پیروان بدھ نے بھی صرف رحم و محبت محبت پر زور دیا۔ عدالت نمایاں نہیں ہوئی۔ گویا جہاں تک رحمت و جمال کا تعلق ہے یا تو قہر و غضب کا عنصر غالب تھا یا مساوی تھا یا پھر رحمت و محبت آئی تھی تو اس طرح آئی تھی کہ عدالت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔ لیکن قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایسا کامل تصور پیدا کردیا کہ قہر و غضب کے لیے کوئی جگہ ہی نہ رہی دوسری طرف جزائے عمل کا سر رشتہ بھی ہاتھ سے نہیں دیا کیونکہ جزا کا اعتقاد قہر و غضب کی بنا پر نہیں بلکہ عدالت کی بنا پر قائم کردیا۔ چنانچہ صفات الٰہی کے بارے میں اس کا عام اعلان یہ ہے : "قل ادعوا اللہ اوادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی : اے پیغمبر، ان سے کہہ دو، تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس صفت سے بھی پکارو اس کی ساری صفتیں حسن و خوبی کی صفتیں ہیں" یعنی وہ خدا کی تمام صفتوں کو "اسمائے حسنی" قرار دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی کوئی صفت نہیں جو حسن و خوبی کی صفت نہ ہو۔ یہ صفتیں کیا کیا ہیں؟ قرآن نے پوری وسعت کے ساتھ انہیں جابجا بیان کیا ہے۔ ان میں ایسی صفتیں بھی ہیں جو بظاہر قہر و جلال کی صفتیں ہیں۔ مثلاً جبار، قہار، لیکن قرآن کہتا ہے، وہ بھی "اسمائے حسنی" ہیں۔ کیونکہ ان میں قدرت و عدالت کا ظہور ہوا ہے اور قدرت و عدالت حسن و خوبی ہے۔ خونخواری و خوفناکی نہیں ہے۔ چنانچہ سورۃ حشر میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر متصلاً ان سب کو "اسمائے حسنی" قرار دیا ہے۔ " ہُوَ اللَّہُ الَّذِی لا إِلَہَ إِلا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ (٢٣) ہُوَ اللَّہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الأسْمَاءُ الْحُسْنَی یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ (٢٤): وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ و الملک ہے۔ القدوس ہے۔ السلام ہے۔ المومن ہے۔ المہیمن ہے۔ العزیز ہے۔ الجبار ہے۔ المتکبر ہے۔ اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اس کی معبودیت میں بنا رکھے ہیں، وہ الخالق ہے۔ الباری ہے۔ المصور ہے (غرض کہ) اس کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ آسمان و زمین میں جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اس کی پاکی اور عظمت کی شہادت دے رہی ہیں اور بلاشبہ وہی ہے جو حکمت کے ساتھ غلبہ و توانائی بھی رکھنے والا ہے" اسی طرح سورۃ اعراف میں ہے : "وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بہا وذروا الذین یلحدون فی اسمائہ : اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ سو چاہیے کہ ان صفتوں سے اسے پکارو۔ اور جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ اس کی صفتوں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو" 1؎ چنانچہ اسی لیے سورۃ فاتحہ میں صرف تین صفتیں نمایاں ہوئیں : ربوبیت، رحمت اور عدالت۔ اور قہر و غضب کی کسی صفت کو یہاں جگہ نہ دی گئی۔ 1؎۔ اس آیت میں "الحاد فی الاسماء " سے مقصد کیا ہے؟ "الحاد" لحد سے ہے۔ "لحد" کے معنی میلان عن الوسط کے ہیں۔ یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔ اسی لیے ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے۔ لحد کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وسط حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان۔ ای مال عن الحق۔ پس یہاں الحاد فی الاسماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرف ہوجانا۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں کی ہے " ان یوصف بما لا یصح وصفہ بہ او ان یتاول اوصافہ علی مالا یلیق بہ (مفردات 464)۔ یعنی خدا کے لیے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہیں ہونا چا ہے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ 12۔ (3)۔ اشراکی تصورات کا کلی انسداد : ثالثاً : جہاں تک توحید و اشراک کا تعلق ہے قرآن کا تصور اس درجہ کامل اور بے لچک ہے کہ اس کی کوئی نظیر پچھلے تصورات میں نہیں مل سکتی۔ اگر خدا اپنی ذات میں یگانہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی صفات میں بھی یگانہ ہو۔ کیونکہ اس کی یگانگت کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی اگر کوئی دوسری ہستی اس کی صفات میں شریک و سہیم مان لی جائے۔ قرآن سے پہلے توحید کے ایجابی پہلو پر تو تمام مذاہب نے زور دیا تھا لیکن سلبی پہلو نمایاں نہیں ہوسکا تھا۔ ایجابی پہلو یہ ہے کہ خدا ایک ہے۔ سلبی یہ ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں۔ اور جب اس کی طرح کوئی نہیں تو ضروری ہے کہ جو صفتیں اس کے لیے ٹھہرا دی گئی ہیں ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہ ہو۔ پہلی بات توحید فی الذات سے اور دوسری توحید فی الصفات سے تعبیر کی گئی ہے۔ قرآن سے پہلے اقوام عالم کی استعداد اس درجہ بلند نہیں ہوئی تھی کہ توحید فی الصفات کی نزاکتوں اور بندشوں کی متحمل ہوسکتی اس لیے مذاہب نے تمام تر زور توحید فی الذات ہی پر دیا۔ توحید فی الصفات اپنی ابتدائی اور سادہ حالت میں چھوڑ دی گئی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں باوجودیکہ تمام مذاہب قبل از قرآن میں عقیدہ توحید کی تعلیم موجود تھی لیکن کسی نہ کسی صورت میں شخصیت پرستی، عظمت پرستی، اور اصنام پرستی نمودار ہوتی رہی اور رہنمایان مذاہب اس کا دروازہ بند نہ کرسکے۔ ہندوستان میں تو غالباً اول روز ہی سے یہ بات تسلیم کرلی گئی تھی کہ عوام کی تشفی کے لیے دیوتاؤں اور انسانی عظمتوں کی پرستاری ناگریز ہے اور اس لیے توحید کا مقام صرف خواص کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ فلاسفہ یونان کا بھی یہی خیال تھا۔ یقیناً وہ اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ کوہ الیمپس کے دیوتاؤں کی کوئی اصلیت نہیں، تاہم سقراط کے علاوہ کسی نے بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ عوام کے اصنامی عقائد میں خلل انداز ہو۔ وہ کہتے تھے اگر دیوتاؤں کی پرستش کا نظام قائم نہ رہا تو عوام کی مذہبی زندگی درہم برہم ہوجائے گی۔ فیثا غورس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے اپنا مشہور حسابی قاعدہ معلوم کیا تھا تو اس کے شکرانے میں سو بچھڑوں کی قربانی دیوتاؤں کے نذر کی تھی۔ اس بارے میں سب سے زیادہ نازک معاملہ معلم و رہنما کی شخصیت کا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی تعلیم عظمت و رفعت حاصل نہیں کرسکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہوجائے۔ لیکن شخصیت کی عظمت کے حدود کیا ہیں؟ یہیں آ کر سب کے قدموں نے ٹھوکر کھائی۔ وہ اس کی ٹھیک حد بندی نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی شخصیت کو خدا کا اوتار بنا دیا، کبھی ابن اللہ سمجھ لیا، کبھی شریک و سہیم ٹھہرا دیا اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم اس کی تعظیم میں بندگی و نیاز کی سی شان پیدا کردی۔ یہودیوں اپنے ابتدائی عہد کی گمراہیوں کے بعد کبھی ایسا نہیں کیا کہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کی ہو۔ لیکن اس بات سے وہ بھی نہ بچ سکے کہ اپنے نبیوں کی قبروں پر ہیکل تعمیر کر کے انہیں عبادت گاہوں کی سی شان و تقدیس دے دیتے تھے۔ گوتم بدھ کی نسبت معلوم ہے کہ اس کی تعلیم میں اصنام پرستی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی آخری وصیت جو ہم تک پہنچی ہے یہ ہے "ایسا نہ کرنا کہ میری نعش کی راکھ کی پوجا شروع کردو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقین کرو نجات کی راہ تم پر بند ہوجائے گی" (آرلی بودھ ازم 12)۔ لیکن اس وصیت پر جیسا کچھ عمل کیا گیا، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ نہ صرف بدھ کی خاک اور یادگاروں پر معبد تعمیر کیے گئے۔ بلکہ مذہب کی اشاعت کا ذریعہ ہی یہ سمجھا گیا کہ اس کے مجسموں سے زمین کا کوئی گوشہ خالی نہ رہے۔ ویہ واقعہ ہے کہ دنیا میں معبود کے بھی اتنے مجسمے نہیں بنائے گئے جتنے گوتم بدھ کے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمیں معلوم ہے کہ مسیحیت کی حقیقی تعلیم سرتاسر توحید کی تعلیم تھی لیکن ابھی اس کے ظہور پر پورے سو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ نشوونما پا چکا تھا۔ توحید فی الصفات : لیکن قرآن نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہوگئے۔ اس نے صرف توحید ہی پر زور نہیں دیا بلکہ شرکی کی بھی راہیں بند کردیں اور یہی اس باب میں اس کی خصوصیت ہے۔ وہ کہتا ہے ہر طرح کی عبادت اور نیاز کی مستحق صرف خدا ہی کی ذات ہے۔ پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو توحید الٰہی کا اعتقاد باقی نہ رہا۔ وہ کہتا ہے یہ اسی کی ذات ہے جو انسانی کی پکار سنتی اور ان کی دعائیں قبول کرتی ہے۔ پس اگر تم نے اپنی دعاؤں اور طلبگاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کرلیا تو گویا تم نے اسے خدا کی خدائی میں شریک کرلیا۔ وہ کہتا ہے کہ دعا، استعانت، رکوع و سجود، عجز و نیاز، اعتماد و توکل اور اس طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ پس اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کرلیا تو خدا کے رشتہ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔ اسی طرح عظمتوں، کبریائیوں، کارسازیوں اور بے نیازیوں کا جو اعتقاد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے وہ صرف خدا ہی کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لیے بھی پیدا کرلیا تو تم نے اسے خدا کا نِد یعنی شریک ٹھہرا لیا اور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہوگیا !۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں ایاک نعبد وایاک نستعین کی تلقین کی گئی۔ اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا پھر دونوں جگہ مفعول کو مقدم کیا جو مفید حصر ہے۔ یعنی "صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں" اس کے علاوہ تمام قرآن میں اس کثرت کے ساتھ توحید فی الصفات اور رد اشراک پر زور دیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔ مقام نبوت کی حد بندی : سب سے زیاہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حد بندی کا تھا۔ یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصلی جگہ میں محدود کردینا تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لیے سد باب ہوجائے۔ اس بارے میں قرآن نے جس طرح صاف اور قطعی لفظوں میں جا بجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندگی پر زور دیا ہے محتاج بیان نہیں۔ ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے۔ اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے وہ سب کو معلوم ہے "اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ ورسولہ" یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے" اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل و اساس بن جائے اور اس کا کوئی موقع ہی باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملہ کا تحفظ کیا جاسکتا تھا؟ کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی کا بھی اقرار نہ کرلے ! یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد مسلمانوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کبھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی ان کی وفات پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے برسر منبر اعلان کردیا تھا : "من کان منکم یعبد محمدا فان محمدا قد مات و من کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت : جو کوئی تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرستش کرتا تھا۔ سو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد نے وفات پائی۔ اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے اس لیے موت نہیں" (بخاری شریف) (4)۔ عوام اور خواص دونوں کے لیے ایک تصور : رابعاً قرآن سے پہلے علوم وفنون کی طرح مذہبی عقائد میں بھی خاص و عام کا امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ خدا کا ایک تصور تو حقیقی ہے اور خواص کے لیے ہے۔ ایک تصور مجازی ہے اور عوام کے لیے ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تین درجے قرار دیے گئے : عوم کے لیے دیوتاؤں کی پرستش، خواص کے لیے براہ راست خدا کی پرستش اور اخص الخواص کے لیے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔ یہی حال فلاسفہ یونان کا تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم و حکمت ہی کرسکتے ہیں۔ عوام کے لیے اسی میں امن ہے کہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔ لیکن قرآن نے حقیقت و مجاز یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رکھا۔ اس نے سب کو خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لیے صفات الٰہی کا ایک ہی تصور پیش کردیا۔ وہ حکما و عرفا سے لے کر جہاد و عوام تک سب کو حقیقت کا ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ایک ہی دروازہ کھولتا ہے۔ اس کا تصور جس طرح ایک حکیم وعارف کے لیے سرمایہ تفسکر ہے اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لیے سرمایہ تسکین ! اس سلسلہ میں معاملہ کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ ہندوستان میں خواص اور عوام کے خدا پرستانہ تصوروں میں جو فرق مراتب ملحوظ رکھا گیا وہ معاملہ کو اس رنگ میں بھی نمایاں کرتا ہے کہ یہاں کا مذہبی نقطہ خیال ابتدا سے فکر و عمل کی رواداری پر مبنی رہا ہے۔ یعنی کسی دائرہ فکر کو بھی اتنا تنگ اور بے لچک نہیں رکھا گیا کہ کسی دوسرے دائرہ کی اس میں گنجائش ہی نہ نکل سکے۔ یہاں خواص توحید کی راہ پر گامزن ہوئے لیکن عوام کے لیے دیوتاؤں کی پرستش اور مورتیوں کی معبودیت کی راہیں بھی کھلی چھوڑ دی گئیں۔ گویا ہر عقیدہ کو جگہ دی گئی۔، ہر عمل کے لیے گنجائش نکالی گئی اور ہر طور طریقہ کو آزادانہ نشوونما کا موقع مل گیا۔ مذہبی اختلاف جو دوسری قوموں میں باہمی جنگ و جدال کا ذریعہ رہا ہے یہاں آپس کے سمجھوتوں کا ذریعہ بنا اور ہمیشہ متعارض اصول باہم دگر ٹکرانے کی گجہ ایک دوسرے کے لیے جگہیں نکالتے رہے۔ تخالف کی حالت میں تفاہم اور تعارض کی حالت میں تطابق گویا یہاں کے ذہنی مزاج کی عام خصوصیت تھی۔ ایک ویدانتی جانتا ہے کہ اصل حقیقت اشراک اور بت پرستی کے عقائد سے بالا تر ہے تاہم یہ جاننے پر بھی وہ بت پرستی کا منکر و مخالف نہیں ہوجاتا۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پس ماندگان راہ کے لیے یہ بھی ایک ابتدائی منزل ہوئی اور راہرو کوئی راہ اختیار کرے مگر مقصود اصلی ہر حال میں سب کا ایک ہی ہے : خواہ از طریق میکدہ خواہ از رہ حرم از ہر جہت کہ شاد شوی فتح باب گیر ! چنانچہ چند سال ہوئے پروفیسر سی۔ ای۔ ام جوڈ (Joad) ہندوستان کے تاریخی خصائص پر نظر ڈالتے ہوئے اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں جگہ دی تے ھی اور اس سے پہلے دوسرے اہل قلم بھی اس پہلو پر زور دے چکے ہیں۔ ہمیں چاہیے معاملے کے اس پہلو پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ بلاشبہ فکر و عمل کی اس روادارانہ سوچ کا جو ہندوستان کی تاریخ میں برابر ابھرتی رہی ہے ہمیں اعتراف کرنا چاہیے لیکن معاملہ صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا۔ زندگی کے حقائق کے تقاضوں کا یہاں کچھ عجیب حال ہے۔ یہاں ہم کسی ایک گوشے ہی کے ہو کر نہیں رہ جاسکتے۔ دوسرے گوشوں کی بھی خبر رکھنی پڑتی ہے۔ اور فکر و عمل کی ہر راہ اتنی دور تک چلی گئی ہے کہ کہیں کہیں جا کر حد بندی کی لکیریں کھینچنی پڑتی ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو علم و اخلاق کے تمام احکام متزلزل ہوجائیں اور اخلاق اقدار کی کوئی مستقل حیثیت باقی نہ رہے۔ رواداری یقیناً ایک خوبی کی بات ہے لیکن ساتھ ہی عقیدہ کی مضبوطی، رائے کی پختگی اور فکر کی استقامت کی خوبیوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پس یہاں کوئی نہ کوئی حد بندی کا خط ضرور ہونا چاہیے جو ان تمام خوبیوں کو اپنی اپنی جگہ قائم رکھے۔ اخلاق کے تمام احکام انہی حد بندیوں کے خطوط سے بنتے اور ابھرتے ہیں۔ جونہی یہ ہلنے لگتے ہیں اخلاق کی پوری دیوار ہل جاتی ہے۔ عفو و درگزر بڑی ہی حسن و خوبی کی بات ہے لیکن یہ عفو و درگزر جب اپنی حد بندی کے خط سے آگے بڑھ جاتا ہے تو عفو و درگزر نہیں رہتا اسے بزدلی اور بے ہمتی کے نام سے پکارنے لگتے ہیں۔ شجاعت انسانی سیرت کا سب سے بڑا وصف ہے۔ لیکن یہ وصفت جب اپنی حد سے گزر جائے گا تو نہ صرف اس کا حکم ہی بدل جائے گا بلکہ صورت بھی بدل جائے گی۔ اب اسے دیکھیے تو وہ شجاعت نہیں ہے قہر و غضب اور ظلم وتشدد ہوگیا۔ دو حالتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں ہوسکتا۔ ایک حالت یہ ہے کہ کسی خاص اعتقاد اور عمل کی روشنی ہمارے سامنے آگئی ہے اور ہم ایک خاص نتیجہ تک پہنچ گئے ہیں َ اب اس کی نسبت ہمار اطرز عمل کیا ہونا چاہیے؟ ہم اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں یا متزلزل رہیں ؟ دوسرے حالت یہ ہے کہ جس طرح ہم کسی خاص نتیجے تک پہنچے ہیں اسی طرح ایک دوسری شخص بھی ایک دوسرے نتیجے تک پہنچ گیا ہے اور یہاں فکر و عمل کی ایک ہی راہ سب کے آگے نہیں کھلتی۔ اب ہمارا طرز عمل اس شخص کی نسبت کیا ہونا چاہیے؟ ہماری طرح اسے بھی اپنی راہ چلنے کا حق ہے یا نہیں؟ رواداری کا صحیح محل دوسری حالت ہے۔ پہلی نہیں ہے۔ اگر پہلی حالت میں وہ آئے گی تو یہ رواداری نہ ہوگی۔ اعتقاد کی کمزوری اور یقین کا فقدان ہوگا۔ رواداری یہ ہے کہ اپنے حق اعتقاد و عمل کے ساتھ دوسرے حق اعتقاد و عمل کا بھی اعتراف کیجیے۔ اور اگر دوسرے کی راہ آپ کی صریح غلط دکھائی دے رہی ہے جب بھی اس کے اس کے حق سے انکار نہ کیجیے کہ وہ اپنی غلط راہ پر بھی چل سکتا ہے۔ لیکن اگر رواداری کے حدود یہاں تک بڑھا دیے گئے کہ وہ آپ عقیدوں میں بھی مداخلت کرسکتی ہے اور آپ کے فیصلوں کو بھی نرم کرسکتی ہے پھر یہ رواداری نہ ہوئی استقامت فکر کی نفی ہوگئی۔ مفاہمت زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے اور ہماری زندگی ہی سرتاسر مفاہمت ہے۔ لیکن ہر راہ کی طرح یہاں بھی حد بندی کی کوئی لکیر کھینچنی پڑے گی اور جس حد پر بھی جا کر لکیر کھینچی گئی معاً عقیدہپیدا ہوگیا۔ اب جب تک عقیدہ کی تبدیلی کی کوئی روشنی سامنے نہیں آتی آپ مجبور ہیں کہ اس پر جمے رہیں اور اس میں کاٹ چھانٹ نہ کریں۔ آپ دوسروں کے عقائد کا احترام ضرور کریں گے لیکن اپنے عقیدہ کو بھی کمزوری کے حوالہ نہیں ہونے دیں گے۔ کتنی ہی مصیبتیں ہیں جو اعتقاد اور عمل کے تمام گوشوں میں اسی دروازہ سے آئیں کہ ان دو مختلف حالتوں کا امتیازی خط اپنی جگہ سے ہل گیا۔ اگر اعتقاد کی مضبوطی آئی تو اتنی دور تک چلی گئی کہ رواداری کے تمام تقاضے بھلا دیے گئے اور دوسروں کے اعتقاد و عمل میں جبراً مداخلت کی جانے لگی۔ اگر رواداری آئی تو اس بے اعتدالی کے ساتھ آئی کہ استقامت فکر و رائے کے لیے کوئی جگہ نہ رہی، ہر عقیدہ لچک گیا ہر یقین ہلنے لگا۔ پہلی بے اعتدالی کی مثالیں ہمیں ان مذہبی تنگ نظریوں اور سخت گیریوں میں ملتی ہیں جن کی خونچکاں داستانوں سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوچکے ہیں۔ دوسری بے اعتدالی کے نتائج کی مثال ہمیں ہندوستان کی تاریخ مہیا کردیتی ہے۔ یہہاں فکر و عقیدہ کی کوئی بلندی بھی وہم و جہالت کی گراوٹ سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکی اور علم و عقل اور وہم و جہل میں ہمیشہ سمجھوتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان سمجھوتوں نے ہندوستانی دماغ کی شکل و صورت بگاڑ دی۔ اس کی فکری ترقیوں کا تمام حسن اصنامی عقیدوں اور وہم پرستیوں کے گرد و غبار میں چھپ گیا۔ زمانہ حال کے مورخوں نے اس صورت حال کا اعتراف کیا ہے۔ ہمارے زمانے کا ایک قابل ہندو مصنف اس عہد کی فکری حالت پر نظر ڈالتے ہوئے جب آریائی تصورات ہندوستان کے مقامی مذاہب سے مخلوط ہونے لگے تھے تسلیم کرتا ہے کہ "ہندو مذہب کی مخلوط نوعیت کی توضیح ہمیں اس صورت حال میں مل جاتی ہے۔ صحرا نورد قبائل کے وحشیانہ توہمات سے لے کر اونچے سے اونچے درجہ کے تہ رس غور وخوض تک ہر درجہ اور ہر دائرہ فکر کے خیالات یہاں باہم دگر ملتے اور مخلوط ہوتے رہے۔ آریائی مذہب اول روز سے کشادہ دل، خود رو اور روادار تھا۔ وہ جب کبھی کسی نئے موثر سے دوچار ہوا تو خود سمٹتا گیا اور جگہیں نکالتا رہا۔ اس کی اس مزاجی حالت میں ہم ایک سچے انکسار طبع اور ہمدردانہ مفاہمت کا شائستہ رجحان محسوس کرتے ہیں۔ ہندو دماغ اس کے لیے تیار نہیں ہوا کہ نچلے درجہ کے مذہبوں کو نظر انداز کردے یا لڑا کر ان کی ہستی مٹا دے۔ اس کے اندر ایک مذہبی مجنون کا غرور نہیں تھا کہ صرف اسی کا مذہب سچا مذہب ہے۔ اگر انسانوں کے ایک گروہ کو کسی ایک معبود کی پرستش اس کے طور طریقے پر تسکین قلب مہیا کردیتی ہے تو تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ بھی سچائی کی ایک راہ ہے۔ مکمل سچائی پر کوئی بیک دفعہ قابض نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف بتدریج اور بہ تفریق ہی حاصل کی جاسکتی ہے اور یہاں ابتدائی اور عارضی درجوں کو بھی ان کی ایک جگہ دینی پڑتی ہے۔ ہندو دماغ نے رواداری اور باہمی مفاہمتوں کی یہ راہ اختیار کرلی لیکن وہ یہ بات بھول گیا کہ بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں جب رواداری کی جگہ نارواداری ایک فضیلت کا حکم پیدا کرلیتی ہے اور مذہبی معاملات میں بھی گریشم کے قانون کی طرح کا ایک قانون کام کرتا رہتا ہے (گریشم کے قانون سے مقصود اقتصادیات کی یہ اصل ہے کہ اگر کھرے سکوں کے ساتھ کھوٹے سکے ملا دیے جائیں گے تو کھرے سکوں کی قیمت باقی نہیں رہے گی)۔ جب آریائی اور غیر آریائی مذاہب باہم دگر ملے۔ ایک شائستہ، دوسرا ناشائستہ، ایک اچھی قسم کا، دوسرا نکما۔ تو غیر شائستہ اور نکمے اجزا میں قدرتی طور پر یہ میلان پیدا ہوگیا کہ شائستہ اور اچھے اجزا کو دبا کر معطل کردے۔" (پروفیسر اس رادھا کرشناں۔ انڈین فلاسفی۔ جلد اول صفحہ 119۔ طبع ثانی)۔ بہرحال قرآن کے تصور الٰہی کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے کسی طرح کی اعتقادی مفاہمت اس بارے میں جائز نہیں رکھی۔ وہ اپنے توحید اور تنزیہی تصور میں سرتاسر بے میل اور بے لچک رہا۔ اس کی یہ مضبوط جگہ کسی طرح بھی ہمیں روادرانہ طرز عمل سے روکنا نہیں چاہتی۔ البتہ اعتقادی مفاہمتوں کے تمام دروازے بند کردیتی ہے۔ خامساً: قرآن نے تصور الٰہی کی بنیاد انسان کے عالمگیر وجدانی احساس پر رکھی ہے۔ یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و کفر کی کاوشوں کا ایک ایسا معمہ بنا دیا ہو جسے کسی خاص طبقہ کا ذہن ہی حل کرسکے۔ انسان کا عالمگیر وجدانی احساس کیا ہے؟ یہ ہے کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہوگئی ہے اور اس لیے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔ پس قرآن بھی اس بارے میں عام طور پر جو کچھ تلاتا ہے وہ اتنا ہی ہے اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں ہے۔ انفرادی اور ذاتی تجربہ و احوال کا معاملہ ہے۔ اس لیے وہ اس کا بوجھ جماعت کے افکار پر نہیں ڈالتا۔ اسے اصحاب جہد و طلب کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ "والذین جاھدوا فینا لنہدینہم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین : اور جو لوگ ہم تک پہنچنے کے لیے کوشش کریں گے تو ہم بھی ضرور ان پر راہ کھول دیں گے اور اللہ نیک کرداروں سے الگ کب ہے؟ وہ تو ان کے ساتھ ہے !" "وفی الارض ایات للموقنین۔ وفی انفسکم افلا تبصرون : اور ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں زمین میں کتنی ہی حقیقت کی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اندر بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں؟" سادساً: اسی مقام سے وہ فرق مراتب بھی نمایاں ہوجاتا ہے جو اسلام نے بالکل ایک دوسری شکل و نوعیت میں عوام و خواص کا ملحوظ رکھا ہے۔ ہندو مفکروں نے عوام اور خواص میں الگ الگ تصور اور عقیدے تقسیم کیے۔ اسلام نے تصور اور عقیدے کے اعتبار سے کوئی امتیاز جائز نہیں رکھا۔ وہ حقیقت کا ایک ہی عقیدہ ہر انسانی دل و دماغ کے آگے پیش کرتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ طلب و جہد کے لحاظ سے سب کے مراتب یکساں نہیں ہوسکتے۔ اور یہاں ایک ہی درجہ کی پیاس لے کر ہر طالب حقیقت نہیں آتا۔ عامۃ الناس بحیثیت جماعت کے اپنا ایک خاص مزاج اور اپنی خاص احتیاج رکھتے ہیں۔ خاص افراد بحیثیت فرد کے اپنی طلب و اسستعداد کا الگ الگ درجہ و مقام رکھتے ہیں۔ پس اس نے جس امتیاز سے پہلی صورت میں انکار کردیا تھا اس سے دوسری صورت میں انکار نہیں کیا اور مختلف مدارج طلب کے لیے عرفان و یقین کی مختلف راہیں کھلی چھوڑ دیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک متفق علیہ روایت میں جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے، نہایت جامع و مانع لفظوں میں یہ فرق مراتب واضح کردیا گیا ہے۔ یہ حدیث تین مرتبوں کا ذکر کرتی ہے۔ اسلام، ایمان اور احسان۔ اسلام یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کا اقرار کرنا اور عمل کے چاروں رکن یعنی نماز روزہ، حج اور زکوۃ انجام دینا۔ ایمان یہ ہے کہ اقرار کے مرتبہ سے آگے بڑھنا اور اسلام کے بنیادی عقائد کے حق الیقین کا مرتبہ حاص کرنا۔ احسان یہ ہے کہ : "ان تعبداللہ کانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک : تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے گویا اسے اپنے سامنے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ ررہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے" (صحیحین) پس گویا عرفان حقیقت کے لحاظ سے یہاں تین مرتبے ہوئے۔ پہلا مرتبہ اسلامی دائرہ کے عام اعتقاد و عمل کا ہے۔ یہ اسلام ہے۔ یعنی جس نے اسلامی عقیدہ کا اقرار کرلیا اور اس کے اعمال کی زندگی اختیار کرلی وہ اس دائرہ میں آگیا۔ لیکن دائرہ میں داخل ہوجانے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ علم و یقین کے جو مقامات ہیں وہ بھی ہر ورد و داخل کو حاصل ہوگئے۔ پس اب دوسرا مرتبہ نمایاں ہوا جسے ایمان سے تعبیر کیا ہے۔ اسلام ظاہر کا اقرار و عمل تھا۔ ایمان دل و دماغ کا یقین و اذعان ہے۔ یہ مرتبہ جس نے حاسل کرلیا وہ عوام سے نکل کر خواص کے زمرہ میں داخل ہوگیا۔ لیکن معاملہ اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا۔ عرفان حقیقت اور عین الیقین ایقان کا ایک اور مرتبہ ابھی باقی رہ جاتا ہے۔ اسے احسان سے تعبیر کیا گیا۔ لیکن یہ مقام محض اعتقاد اور یقین پیدا کرلینے کا نہیں ہے جو ایک گروہ کو بحیثیت گروہ کے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ ذاتی تجربہ کا مقام ہے۔ جو یہاں تک پہنچتا ہے وہ اپنے ذات تجربہ و کشف سے یہ درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ تعلیمی اور احکامی عقائد کو اس میں دخل نہیں۔ بحث و نظر کی اس میں گنجائش نہیں۔ یہ خود کرنے اور پانے کا معاملہ ہے۔ بتلانے اور سمجھانے کا معاملہ نہیں۔ جو یہاں تک پہنچ گیا وہ اگر کچھ بتلائے گا بھی تو یہی بتلائے گا کہ، میری طرح بن جاؤ۔ پھر جو کچھ دکھائی دیتا ہے دیکھ لو : پرسید یکے کہ عاشقی چیست؟ گفتم کہ چومن شوی بدانی اسلام نے اس طرح طلب و جہد کی پیاس کے لیے درجہ بدرجہ سیرابی کا سامان کردیا۔ عوام کے لیے پہلا مرتبہ کافی ہے۔ خواص کے یے دوسرا مرتبہ ضروری ہے اور اخص الخواص کی پیاس بغیر تیسرے جام کے تسکین پانے والی نہیں۔ اس کے تصور الٰہی اور عقیدہ کا میخانہ ایک ہے لیکن جام الگ الگ ہوئے۔ ہر طا الب کے حصے میں اس کے ظرف کے مطابق ایک جام آجاتا ہے اور اس کی سرشاری کی کیفیتیں مہیا کردیتا ہے۔ وللہ در ما قال : ساقی بہ ہمہ بادہ ز یک خم دہد، اما در مجلس او مستی ہر کس زشرابے ست ! یہاں یہ امر بھی واضح کردینا بے محل نہ ہوگا کہ قرآن کی متعدد تصریحات ہیں جنہیں اگر وحدۃ الوجودہ تصور کی طرف لے جایا جائے تو بلا تکلف دور تک جاسکتی ہیں۔ مثلا ھو الاول والآخر والظاھر والباطن۔ اور اینما تولوا فثم وجہ اللہ اور ونحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ اور کل یوم ھو فی شان۔ یا تمام اس طرح کی تصریحات جن میں تمام موجودات کا بالآخر اللہ کی طرف لوٹنا بیان کیا گیا ہے۔ توحید وجودی کے قائل ان تمام آیات سے مسئلہ وحدۃ الوجود پر استدلال کرتے ہیں اور شاہ ولی اللہ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر " میں مسئلہ وحدۃ الوجود کو ثابت کرنا چاہوں تو قرآن و حدیث کے تمام نصوص و ظواہر سے اس کا اثبات کرسکتا ہوں" لیکن صاف بات جو اس بارے میں معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ان تمام تصریحات کو ان کے قریبی محامل سے دور نہیں لے جانا چاہیے اور ان معانی سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے جو صدر اول کے مخاطبوں نے سمجھے تھے۔ باقی رہا حقیقت کے کشف و عرفان کا وہ مقام جو عرفائے طریق کو پیش آتا ہے۔ تو وہ کسی طرح بھی قرآن کے تصور الٰہی کے عقیدے کے خلاف نہیں۔ اس کا تصور ایک جامع تصور ہے اور ہر توحیدی تسور کی اس میں گنجائش موجود ہے۔ جو افرادِ خاصہ مقام احسان تک رسائی حاصل کرتے ہیں وہ حقیقت کو اس کی سپ پردہ جلوہ طرازیوں میں دیکھ لیتے ہیں اور عرفان کا وہ منتہی مرتبہ جو فکر انسانی کی دسترس میں ہے انہیں حاصل ہوجاتا ہے۔ ومن لم یذق، لم یدر : تو نظر باز نہ ورنہ تغافل نگہ ست تو زبان فہم نہ ورنہ خموشی سخن ست ! سابعاً: جس ترتیب کے ساتھ سورۃ فاتحہ میں یہ تینوں صٖتیں بیان کی گئی ہیں دراصل فکر انسانی کی طلب و معرفت کی قدرتی منزلیں ہیں اور اگر غور کیا جائے تو اسی ترتیب سے پیش آتی ہیں۔ سب سے پہلے ربوبیت کا ذکر کیا گیا۔ کیونکہ کائنات ہستی میں سب سے زیاہ ظاہر نمود اسی صفت کی ہے اور ہر وجود کو سب سے زیادہ اسی کی احتیاج ہے۔ ربوبیت کے بعد رحمت کا ذکر کیا کیونکہ اس کی حقیقت بمقابلہ ربوبیت کے مطالعہ و تفکر کی محتاج تھی اور ربوبیت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تب رحمت کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ پھر رحمت کے بعد عدالت کی صفت جلوہ افروز ہوئی کیونکہ یہ سفر کی آخری منزل ہے۔ رحمت کے مشاہدات کی منزل سے جب قدم آگے بڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہاں عدالت کی نمود بھی ہر جگہ موجود ہے اور اس لیے موجود ہے کہ ربوبیت اور رحمت کا مقتضا یہی ہے۔ (آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔